الخميس، 05 رجب 1447| 2025/12/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اسد حکومت کے خاتمے کا ایک سال: چند اہم فکری پہلو

 

تحریر: استاد ناصر شیخ عبدالحی

 

جشنِ آزادی نے فخر، مسرت اور شادمانی کے ان جذبات کو ازسرِ نو جلا بخشی ہے جو ایک جابر ظالم اور عصرِ حاضر کے بت کے سقوط پر پیدا ہوئے تھے۔ تاہم، اس سنگِ میل پر درج ذیل نکات کو پیشِ نظر رکھنا سودمند ہو گا، جو ان شاء اللہ مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

 

پہلا نکتہ: اسد حکومت کا خاتمہ اور مجرم بشار الاسد کا فرار کوئی ناگہانی واقعہ نہیں تھا۔ بلکہ اس کی راہ چودہ سالہ عظیم قربانیوں اور اس مسلسل شعور نے ہموار کی جو غیر متزلزل ایقان، صبر، لگن اور  جدوجہد کا ثمر تھا۔ اس کے پہلو بہ پہلو ایک ایسی مستحکم عوامی رائے عامہ تشکیل پائی جس نے محاذوں کو گرم کرنے، حکومت کا تختہ الٹنے اور عوام کو اس کے شر سے نجات دلانے کا مطالبہ کیا؛ اسی دباؤ نے نظام کی بنیادوں کا کھوکھلا پن آشکار کیا اور اس کے انہدام کی راہ ہموار کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فتح محض اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت تھی، جس نے اسباب کو ترتیب دیا اور اسد خاندان کے پانچ سیاہ عشروں پر محیط استبداد کے خاتمے کی سبیل پیدا فرمائی۔

 

دوسرا نکتہ: جیسے ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں بشار کے زوال سے سرفراز فرمایا، بعض سازشی ممالک نے کمال عیاری و نفاق سے اس کی رخصتی کا سہرا اپنے سر باندھنے میں عجلت دکھائی۔ ان میں ترکی کی حکومت بھی پیش پیش ہے جو کل تک بشار کے ساتھ مفاہمت اور تعلقات کی استواری کی وکالت کر رہی تھی اور عرب لیگ میں اس کی بازیافت سمیت علاقائی فورمز پر اس کی دوبارہ شمولیت کی متمنی تھی۔

 

تیسرا نکتہ: دورِ حاضر کا امریکہ، جو آج شام کا ہمنوا بننے کا دعویدار ہے، درحقیقت وہی ماضی کا امریکہ ہے جس نے بشار الاسد کی پشت پناہی کی اور اسے سقوط سے بچانے کے لیے ہر ممکنہ حربہ اختیار کیا۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے روس، ایران، ان کی آلہ کار ملیشیاؤں اور لبنانی حزب اللہ کو "ناپاک مہم" سر کرنے کی کھلی چھوٹ دی تاکہ انقلاب کو کچل کر اسد کو تحفظ دیا جا سکے۔ مزید برآں، یہ وہی امریکہ ہے جو 'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' (SDF) اور اس کی ذیلی ملیشیاؤں کی سرپرستی کر رہا ہے تاکہ موجودہ نظمِ حکومت پر اپنا مخصوص حل اور وژن مسلط کر سکے۔ SDF کی یہ حمایت محض اس لیے ہے کہ وہ اسے اپنے مفادات کے لیے ایک کارگر مہرے کے طور پر دیکھتا ہے، نہ کہ شامی عوام کی فلاح کے لیے۔

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

﴿مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ

 

"اہلِ کتاب کے کافر اور مشرکین ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی خیر نازل ہو" (سورۃ البقرہ: 105

 

 

اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے: "میں تمہاری پارکھ نظروں کے لیے اس دھوکے سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم کسی ورم (سوجن) کو چربی (صحت مندی) گمان کر لو، حالانکہ وہ ایک مہلک بیماری ہو"۔

 

یہ تذکرہ ناگزیر ہے کہ امریکہ نے آزادی کے بعد کی صورتحال پر گرفت مضبوط کرنے میں پھرتی دکھائی تاکہ معاملات اس کے قابو اور اس کے سٹریٹیجک فریم ورک سے باہر نہ نکل پائیں۔ شام کے حوالے سے امریکہ کی تمام چالیں، بیانات اور سیاسی، معاشی و فوجی اقدامات اسی مخصوص دائرہ کار کے پابند تھے۔

 

چوتھا نکتہ: اس بنیادی سیاسی حقیقت کو تسلیم کرنا لازم ہے کہ امریکی پابندیوں کا خاتمہ چند مخصوص شرائط اور مراعات سے مشروط ہے، اور موجودہ انتظامیہ ان نتائج سے مبرا نہیں ہوگی۔ اب یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پابندیوں کا خاتمہ ریاست میں لادینیت (سیکولرزم) کے استحکام، سابقہ نظام کے بدنامِ زمانہ مجرموں کو معافی دینے، بلکہ بعض کو اقتدار کے ایوانوں میں جگہ دینے، اور یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی راہ ہموار کرنے سے جڑا ہوا ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ (یہودی وجود) کھلم کھلا تحقیر و اہانت کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ درحقیقت، مجرموں کو سزا سے بچانا مزید مظالم کی ترغیب دینے کے مترادف ہے۔ مزید برآں، اس کا مقصد انقلاب اور جہاد کے اس ولولے کو ختم کرنا ہے جو اہل ایمان کے دلوں میں راسخ ہو چکا ہے، اور شریعتِ اسلامی کے نفاذ کی ہر سنجیدہ کوشش کا تدارک کرنا ہے۔ "اقلیتوں" کا واویلا اور اس کی آڑ میں پیش کردہ توجیہات محض امریکی وژن اور اس کے مذموم ایجنڈے کو نافذ کرنے کے اوزار ہیں، جن کے لیے چند غدار اور زر خرید کرداروں کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں، خواہ وہ سابقہ حکومت کے کارندے ہوں یا مغرب کے وفادار دیگر عناصر۔ یہ یاد رہے کہ امریکی 'قیصر ایکٹ' (Caesar Act) کا اصل ہدف عوام تھے، حکومت نہیں۔ وگرنہ حکومت کے زوال کے بعد ان پابندیوں کو فی الفور کیوں نہیں اٹھایا گیا، سوائے اس کے کہ ان کے پیچھے خفیہ اور اعلانیہ خطرناک شرائط کا ایک تسلسل موجود ہے؟

 

پانچواں نکتہ: جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ امریکہ کی حمایت پائیدار ہے، وہ سخت مغالطے میں ہے۔ امریکہ اپنے مہروں کو استعمال کر کے بے توقیر کرنے کے لیے شہرت رکھتا ہے، تاکہ جیسے ہی ان کی افادیت ختم ہو یا بہتر متبادل میسر آئے، انہیں دوسروں سے بدل دے۔

 

چھٹا نکتہ: اقوامِ متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل درحقیقت سازشوں کے مراکز ہیں؛ یہ مظلوموں کے مسائل کے حل یا مصائب کے خاتمے کا ذریعہ ہرگز نہیں بن سکتے۔ ہم سب اقوامِ متحدہ کی قرارداد 2254 کے زہریلے اثرات سے واقف ہیں، جس کا مقصد ہمیں تذلیل کے ساتھ مفرور اسد کے سائے تلے واپس دھکیلنا تھا۔

 

ساتواں نکتہ: عالمی بینک (World Bank) اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کوئی فلاحی ادارے نہیں ہیں۔ بلکہ یہ وہ استحصالی سودی نظام ہیں جن کا مقصد قوموں کو معاشی طور پر مفلوج کر کے انہیں امریکی قیادت میں سرمایہ دار مغرب کا دستِ نگر بنانا ہے۔ چنانچہ ان سے قرض لینا اس خوش فہمی میں کہ یہ گرانٹ ہے، سراسر نادانی ہے؛ خصوصاً جب حکام کے بیانات خود ان کڑی شرائط کا پتا دے رہے ہوں جو ان رقوم کے بدلے مانگی گئی ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو خوشنما نعروں کی آڑ میں ہلاکت خیز زہر چھپائے ہوئے ہے!

 

آٹھواں نکتہ: ہمیں کمزور ظاہر کرنے اور مایوسی و محکومی کا شکار کرنے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ بین الاقوامی نظام کی کاسہ لیسی اور اس کے سامنے ہر زیادتی کو "سیکورٹی اور تعمیرِ نو" کے نام پر جائز قرار دیا جا سکے۔ لیکن ہم اپنے دین کی بدولت توانا اور اپنے رب، اللہ (سبحانہ و تعالیٰ) کی تائید سے معزز ہیں۔ ہماری سرزمین عقیدے کے ان شہسواروں سے معمور ہے جنہوں نے عالمی قوتوں کی پشت پناہی کے باوجود سفاک اسد حکومت کو دھول چٹا دی۔ یہ ایمانی قوت ہی تھی جس نے شام کے فرزندانِ اسلام کو ثابت قدم رکھا۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ قوت کے تمام عناصر موجود ہیں، بس ایک پختہ سیاسی عزم اور ایسے فیصلے کی ضرورت ہے جو اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرے

 

نواں نکتہ: ہمارے انقلاب کی اصل پہچان اور امت کا واحد مطالبہ 'اسلام' ہے۔ قوم پرستی، سیکولرزم اور مغربی جمہوریت کے نعروں کی جانب شرمناک جھکاؤ اس حقیقت کو مسخ نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ نظریات دین کو ریاست اور عملی زندگی سے جدا کرنے کی ناکام کوششیں ہیں۔

 

دسواں نکتہ: انقلاب کا اصل محور اس سرزمین کا حقیقی جوہر اور اس کے باسی ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پامردی سے ڈٹے رہے اور اپنی صداقت ثابت کی۔ ان سپوتوں کی شجاعت ہمیں فاتحینِ اسلام کی داستانوں کی یاد دلاتی ہے۔ اللہ کے فضل و کرم کے بعد یہی ہمارا حقیقی سہارا ہیں۔ لہٰذا ان سے روگردانی کر کے بین الاقوامی سرپرستی اور سازشی ممالک کے سراب پر تکیہ کرنا کسی طور جائز نہیں ہے۔

 

گیارہواں نکتہ: یہودی وجود کی سرکشی اور مظالم کو خوشامد، چاپلوسی یا اقوامِ متحدہ سے بے سود فریادوں کے ذریعے نہیں روکا جا سکتا، جو خود ہماری رسوائی میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ غاصب وجود، جس نے ہماری زمین ہتھیا لی، ہمارے لوگوں کا خون بہایا اور ہمارے مقدسات کی توہین کی، صرف طاقت کی زبان اور اس قرآنی حل کو سمجھتا ہے جس کا وعدہ سورۃ الاسراء میں درج ہے، ایک ایسا وعدہ جو بہرحال پورا ہو کر رہے گا۔

 

بارہواں نکتہ: انقلاب کے ثمرات اور تمام تر عالمی رکاوٹوں کے باوجود اسد حکومت کے سقوط کی گونج عالمِ اسلام کے گوشے گوشے میں سنائی دے رہی ہے۔ امتِ مسلمہ بے چین ہے اور اس تبدیلی کے زلزلے کی منتظر ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی مؤمنین کے دلوں کو تسکین عطا فرمائے گا اور زمین پر اپنی شریعت کو ایک ایسی ریاست کے ذریعے قائم فرمائے گا جو منتشر مسلمانوں کو متحد کر کے انہیں ایک ہی امام کے پرچم تلے جمع کر دے گی۔

 

آزادی کا یہ جشن اپنی تمام تر رعنائیوں، نعروں اور پیغامات کے ساتھ اس امت کی زندگی، عزم اور بیدار ہوتے ہوئے شعور کی نوید ہے۔ یہ شعور اب ایک سیلِ رواں بن رہا ہے اور ان شاء اللہ یہ بارش سے پہلے گھرنے والے بادلوں کی مانند ہے۔ یہ وہ نبض ہے جسے دبایا یا مسخ نہیں کیا جا سکتا؛ یہ وہ آواز ہے جس کے بلند ہونے اور وہ حقیقت ہے جس کے ظہور کا وقت آ پہنچا ہے، کیونکہ حقیقت کا سورج کبھی چھلنی سے نہیں چھپایا جا سکتا۔

 

آخر میں، زمین پر اللہ کی سنت آزمائش اور پاکیزہ کو ناپاک سے جدا کرنا ہے۔ فرمانِ الہیٰ ہے:

 

﴿عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ

 

"بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تمہیں زمین میں خلافت (اقتدار) عطا فرمائے، پھر وہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو" (سورۃ الاعراف: 129

 

 

لہٰذا آزادی کی اس عظیم نعمت کا عملی شکر صرف شریعتِ محمدی ﷺ کے نفاذ اور دینِ حق کے قیام میں مضمر ہے؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم (اللہ کی پناہ) اس عورت کی مانند ہو جائیں جس نے بڑی محنت سے سوت کاتنے کے بعد اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا!

 

ولایہ شام میں  حزب التحریر میڈیا آفس کے رکن

Last modified onبدھ, 24 دسمبر 2025 23:38

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک