بسم الله الرحمن الرحيم
عثمانی خلافت کے دردناک زوال کا مشاہدہ کرنے کے بعد رجب کو دوسری خلافت راشدہ کے شاندار قیام کا مشاہدہ کرنے دیں
اے امت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)،جو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہے!
دو طویل، اذیت ناک سالوں تک، مسلم حکمرانوں، مغرب کے ایجنٹوں نے، ہمارے مطالبات کے باوجود ہمیں یہودی وجود کے خلاف اپنی افواج کو متحرک کرنے سے روکے رکھا۔ اس کے بعد، آج کے فرعون، ٹرمپ نے، ایک مکّارانہ جنگ بندی کا حکم دیا، جس میں مسلمانوں پر جنگ بندی لازم تھی جب کہ یہودی وجود اپنی بمباری جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب، ٹرمپ مسلم دنیا میں اپنے ایجنٹوں کی مدد سے، یہودی وجود کو محفوظ بنانے اور مجاہدین کو غیر مسلح کرنے کے لیے، امریکی فوج کی کمان میں مسلم افواج کو متحرک کرنے کی تیاری کر رہا ہے!
مسلم حکمرانوں کی غداری کے ساتھ ساتھ، یہودی وجود غزہ کا وحشیانہ محاصرہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہودی وجود جان بچانے والی انسانی امداد کے داخلے کو روک رہاہے، جس میں خیمے، کمبل اور دیگر ضروری سامان شامل ہیں، جب کہ لاکھوں مسلمانوں کو سخت سردی کے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو سخت سردی، تیز ہواؤں، موسلادھار بارش اور بڑے پیمانے پر سیلاب لے کر آئے ہیں۔
اے بہترین امت جو بنی نوع انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے!
3 مارچ 1924 عیسوی بمطابق 28 رجب 1342 ہجری کو خلافت کے خاتمے کے بعد سے امت مسلمہ کی زندگی کیسی ہے؟ یہ زندگی قبضے، جارحیت، شکست، ذلت، غربت اور مصائب سے بھری ہوئی ہے۔ جب ہمارا دین ہم پر نافذ نہیں ہے تو کیا ہم کسی اور چیز کی توقع کر سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ہمیں متنبہ کیا ہے کہ
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا﴾
’’اور جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں گزرے گی۔‘‘ (سورۃ طٰہٰ 20:124)
کیا ہم کسی اورچیز کی توقع کر سکتے ہیں جب ہمارے پاس ہماری حفاظت کے لیے کوئی ڈھال نہ ہو، کوئی صالح رہنما نہ ہو جو اسلام کے مطابق ہم پر حکومت کرے اور دشمنوں کے خلاف ہماری افواج کو متحرک کر ے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تنبیہ فرمائی کہ
«يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا»
"قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر (حملہ کرنے کے لیے) اس طرح ایک دوسرے کو بلائیں گی جس طرح کھانے والے ایک دوسرے کو اپنے برتن کی طرف بلاتے ہیں۔" [ابو داؤد]
یاد رکھیں کہ رجب ہمیشہ اداسی اور تباہی کا وقت نہیں تھا۔ جب دین نافذ تھا، تو اس نے امت کے دشمنوں کے خلاف عظیم الشان فتوحات کا مشاہدہ کیا۔
رجب میں جنگ موتہ ہوئی، جو مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان پہلی بڑی جنگ تھی۔ یہ اس وقت کی سب سے بڑی کافر قوت اور اپنے زمانے کی سپر پاور کے ساتھ جنگ تھی۔ اس میں اللہ کی تلوار، خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ)نے تقریباً 200,000 کی رومی فوج کے مقابلے میں 3,000 جنگجوؤں کے ساتھ فاتحانہ انداز میں پسپائی اختیار کی، جبکہ رومیوں کی فوج تقریباً دو لاکھ جنگجوؤں پر مشتمل تھی۔ اس کے باوجود مسلمان نہ ہارے اور نہ ہی رومی جیتے۔ تو، ہمارے زمانے میں کفر کی سب سے بڑی طاقت، امریکہ کا مقابلہ کون کرے گا؟
اسی طرح رجب کے مہینے میں صلیبیوں پر قہر بن کر نازل ہونے والے فاتح صلاح الدین، نے بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کرایا، اور الاقصیٰ کو، صلیبی قبضے میں چلے جانے کے کئی عشروں بعد اسلام کی آغوش میں واپس لوٹایا۔ تو آج کون الاقصیٰ کو آزاد کرائے گا اور اسے یہودیوں کے ناپاک وجود سے پاک کرے گا؟! اور کون امت کا مددگار ہوگا، جو امت کی سرزمین کو آزاد کرائے گا اور امت کے کمزوروں کی مدد کرے گا،جبکہ مغربی صلیبیوں نے اپنی پوری طاقت اور وسائل کے ساتھ امت کے خلاف اتحاد کر لیا ہے؟
رجب میں عین جالوت کی جنگ ہوئی، جس میں مسلمانوں نے تاتاریوں کو شکست دی اور اسلامی سرزمین کی طرف ان کی تباہ کن پیش قدمی کو روکا۔ تو آج کون تاتاریوں کا مقابلہ کرے گا اور مظلوم امت کی مدد کرے گا جس کے لوگ کمزور اور بے بس ہیں؟
اور ہم نے اس مہینے میں معتصم باللہ کے دور میں عموریہ کی فتح دیکھی، جب اس نے ایک مسلمان خاتون کی پکار "وا معتصماه" کا جواب دیا اور ایک عظیم فوج کے ساتھ روانہ ہوا اور شاندار فتح حاصل کی۔ تو کون ان ہزاروں خواتین کی مدد کرے گا جو چیخ رہی ہیں اور فریاد کر رہی ہیں؟
اے مسلمانو!
ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہوگا کہ ہم نے اپنے وقت میں کیا کچھ دیکھا اور ہم نے حالات کو درست کرنے کے لیےکیا کچھ کیا۔ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے اور اس کے دین کو اپنے درمیان نافذ کرنے کے لیے کام کرتے ہوئے دین کی حمایت کرنی چاہیے۔ پھر اللہ تعالیٰ ہمیں فتح عطا فرمائے گا اور ہمارے قدم جمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾
"اے ایمان والو اگر تم اللہ کا ساتھ دو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمائے گا۔" [سورۃ محمد: 7]
خلافت وہ نظام ہے جس کی طرف شرعی دلائل اشارہ کرتے ہیں، اور یہ تمام مسلمانوں کی دینی اور دنیاوی امور میں عام سربراہی ہے۔ اسے اپنی اصل صورت میں قائم کرنا واجب ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو امت کے اتحاد کو برقرار رکھتا ہے اور اسلام کو نافذ کرتا ہے۔ اس کے بغیر امت منقسم اور کمزور رہے گی۔ اور اس کے قیام کے لیے کام کرنا محض کوئی خواب یا دور کی امید نہیں ہے، بلکہ یہ ایک شرعی فریضہ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو متحد ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ»
"امام ایک ڈھال ہے، جس کے پیچھے سے جنگ کی جاتی ہے اور جس کے ذریعے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے۔"
اے امت کی افواج میں موجود مسلمانو!
تم اللہ کے حضور اپنے دین اور اپنی امت کی مدد کرنے کے ذمہ دار ہو۔ کیا تم اللہ کے دین کے مددگار بننا پسند نہیں کرتے، جیسا کہ مدینہ کے انصار تھے؟ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے نام اللہ کے ہاں اس امت کے فاتحین اور نجات دہندہ کے طور پر لکھے جائیں؟! غدار حکمرانوں کو ہٹاو، اور اپنی نصرة (فوجی مدد) حزب التحریر کو دو تاکہ نبوت کے نقشِ قدم پر دوسری خلافتِ راشدہ قائم ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة»
"تمہارے درمیان نبوت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ وہ رہے، پھر جب اللہ چاہے گا اسے ختم کر دے گا، پھر نبوت کے طریقے کے مطابق خلافت قائم ہو گی اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا اسے قائم رکھے گا، پھر جب اللہ چاہے گا اسے ختم کر دے گا،۔ پھر کاٹ کھانے والی (موروثی) بادشاہت ہوگی، اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ رہے، پھر جب اللہ چاہے گا تو اسے اٹھا لے گا۔ پھر جابرانہ (ظالمانہ) بادشاہت ہوگی، اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ رہے، پھر جب اللہ چاہے گا تو اسے اٹھا لے گا۔ پھر نبوتکے نقشِ قدم پر خلافت ہوگی۔" یہ فرمانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) خاموش ہو گئے۔
مصعب عمير، ولایہ پاکستان




