بسم الله الرحمن الرحيم
آخر یہ کیسے ہو گیا کہ کمیونزم نے تو اپنی ریاست قائم کر لی، جبکہ امت مسلمہ اپنی ریاست قائم نہیں کر سکی ؟!
(ترجمہ)
محمد وصام الاطرش – تیونس
تعارف
شاید کوئی بھی ذی شعور، کامل فطرت اور راست باز شخص اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اپنے دنوں اور راتوں سمیت، اٹھارہ مہینے کا عرصہ بیت گیا ہے اور جنگ کا بار ہے کہ کم ہونے کو ہی نہیں آ رہا، اور نہ ہی اس سفاک قاتل مشین نے غزہ کے معصوم بے گناہ لوگوں کے خلاف اپنے جرائم کو ختم کیا ہے، صورتحال تو ایسی ہے کہ ہر اگلا لمحہ اپنے ساتھ ایسی دہشت لے کر آتا ہے جو بچوں تک کے بال بھی سفید کر دیتی ہے، اور جنہیں زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والے بھیانک خواب کی مانند بن چکا ہے، جہاں ہر قتلِ عام خون سے لکھے گئے حروف میں رقم ہوتا ہے، اور ایک نیا مرثیہ ان زندہ لوگوں کے نام لکھا جاتا ہے جنہوں نے مظلوموں کی حمایت میں کوئی قدم نہ اٹھایا۔ ان کی آنکھیں خون سے بھرے اور کٹے پھٹے جسموں کے مناظر دیکھنے کی عادی ہو چکی ہیں، بغیر اس کے کہ کسی نے (مظلوموں کی مدد کے لئے) کوئی ایک عضو بھی حرکت میں لایا ہو — خاص طور پر ان عظیم افواج کے کمانڈرز، جو اس علاقے کے گرد اطراف میں موجود ہیں۔ استعماری طاقتوں کے ایجنٹ یہ چاہتے تھے، اور ابھی بھی چاہتے ہیں، کہ یہ ذلت و رسوائی میں ڈوبے رہیں، حالانکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے فرمایا ہے:
﴿وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾
”اگر وہ تم سے دین میں مدد طلب کریں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازم ہے“۔ (الأنفال؛ 8:72)۔
کیا ہم ان کے دلوں میں باقی ماندہ ایمان کے ذرّے جتنی شرم کے لئے فریاد کریں، یا ہم ان کا ماتم کریں، جبکہ وہ ابھی زندہ ہیں؟ سب سے بہترین مثال تو وہ ہے جو واضح اور کھلم کھلا سازباز کر کے میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹ گیا، اور غزہ میں اپنے بھائیوں سے کہتا رہا: 'سامنے سمندر ہے، پھر تم اور تمہارے پیچھے دشمن'۔ یہ لوگ سلطان صلاح الدین کے اقدام کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں؟
غزہ کی ساحلی پٹی، جو 40 کلومیٹر سے زیادہ لمبی نہیں ہے، اسلام، اس کے عقیدہ، اس کے نظام اور اس کے مقدسات ومحرمات پر مسلط عالمی جنگ سے گھری ہوئی ہے۔ اس جنگ میں سب سے طاقتور ہتھیاروں، جنگی جہازوں، اور طیاروں کا استعمال کیا گیا، جن میں سب سے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ڈرونز شامل ہیں، اور سب سے شدید حملے اور دھاوے بول دئیے گئے۔ طاقتور ترین خفیہ ایجنسیاں صیہونی ’ڈائپر فورس‘کے فوجیوں کی حمایت کے لیے متحرک کی گئیں، اور ان کے ٹینکوں میں پیش قدمی کی گئی۔ مساجد پر بمباری، منبروں کی بے حرمتی، قرآن مجید کے نسخے جلا دینے اور مسجد اقصیٰ کے احاطے میں نبی اکرم ﷺ کی ناموس پر حملہ کرنا، یہ سب ایک ہی واقعہ میں مدغم ہو جاتے ہیں، جو تہذیبوں کے تصادم کے سلسلے کا حصہ ہے۔ تہذیبوں کی یہ جنگ فاشزم اور نازی ازم کی حدیں بھی پھلانگ چکی ہے، اور اس وجودی تہذیبی جنگ کے اندر ہمیں اُس 'مہذب' سرمایہ دارانہ دنیا کی حقیقت بے نقاب کر کے دکھا دی ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ اس جنگ نے امت کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ نہ صرف اپنے شرعی فریضہ اور تاریخی ذمہ داری کے سامنے کھڑا ہونے بلکہ اپنی اصل حقیقت، صورت اور خصوصیات کے سامنے بھی لا کھڑا کیا ہے، جب بھی وہ آئینے میں خود پر نظر دوڑاتی ہے، تو مزید بے بس اور کمزور نظر آتی ہے۔ اسے افسوس اور ندامت کے ساتھ یہ حقیقت سمجھ آتی ہے کہ وہ کس قدر ناتواں حالت میں پہنچ گئی ہے، جو کہ اسلام کے شرعی احکام سے دوری اور اسلام کی تمام گرہیں کھولنے کے نتیجہ کی صورت میں سامنے آیا ہے، جس میں سب سے اولین گرہ حکمرانی ہے، تاکہ وہ ایک ایسی امت بن جائے جس میں نہ عزت ہو، نہ طاقت ہو اور نہ ہی کوئی اختیار ہو۔ امت نے اس بات پر اکتفا کر لیا کہ اس کے فوجی جنگ کے میدانوں کو چھوڑ کر کچرا جمع کرتے پھریں اور سبزیاں بیچتے رہیں، اور اپنے ساز و سامان صرف تربیت کے لیے بچا رکھیں۔ اللہ نہ کرے کہ وہ جسے اللہ نے اسلام کے بلند ترین مقام، جہاد سے نوازا ہو، وہ ظالم حکمرانوں کے ظلم کے سامنے سر جھکائے کھڑا رہے اور خاموشی اختیار کر لے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ * إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ * وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ * وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾
”وه ایک آگ جھونک رکھی تھی ایندھن والی جب کہ وه لوگ اس کے آس پاس بیٹھے تھےاور اہل ایمان کے ساتھ جو (ظلم) کر رہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے، یہ لوگ ان مسلمانوں (کے کسی اور گناه کا) بدلہ نہیں لے رہے تھے، سوائے اس کے کہ وه اللہ غالب لائقِ حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے “ (البروج؛ 85: 5-8)
کیا یہ حالت اس بہترین امت کے شایان شان ہے جو انسانیت کے لئے اُٹھائی گئی ہے؟ امام دیلمی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا،
«الْإِسْلَامُ وَالسُّلْطَانُ أَخَوَانِ تَوْأَمان، لَا يَصْلُحُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا إِلَّا بِصَاحِبِهِ، فَالْإِسْلَامُ أُسُّ وَالسُّلْطَانِ حَارِسٌ، وَمَا لَا أُسَّ لَهُ مُنْهَدِمٌ، وَمَا لَا حَارِسَ لَهُ ضَائِعٌ»
”اسلام اور حکمرانی دو جڑواں بھائی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی بغیر دوسرے کے درست نہیں ہو سکتا۔ اسلام بنیاد ہے، اور حکمرانی اس کا محافظ ہے۔ جو چیز بنیاد کے بغیر ہو، وہ تباہ ہو جاتی ہے، اور جو چیز محافظ کے بغیر ہو، وہ بھی ضائع ہو جاتی ہے“۔ ہم اس المیے سے، بلکہ اپنے تمام المیوں سے کیسے نجات پا سکتے ہیں، جب کہ کفر کی طاقتیں ہمیں گھیر چکی ہیں، اور ایجنٹ حکومتوں نے ہمارے ہاتھ زنجیروں سے جکڑ دیئے ہیں؟ یہ حکومتیں یہودی وجود کو تحفظ دے رہی ہیں اور اسلامی سرزمینوں میں اس کے مفادات کی حفاظت کر رہی ہیں، حتیٰ کہ اگر ضرورت پڑے تو امت اور اس کے دین کی پروا کئے بغیر ہماری روزی اور ہماری جانوں تک کو کاٹ ڈالنے پر بھی تیار ہیں۔
سنجیدگی سے حقیقی تبدیلی کے بارے میں غور وفکر
ہولناکیاں اتنی بکثرت ہیں کہ جو دماغ کو بھی پریشان کر دیتی ہیں۔ کئی سوالات امت کے بیٹوں کو ستاتے ہیں، جو امید کی کمزور کرن کی تلاش میں ہیں۔ جنگ کا سا ماحول چھایا ہوا ہے۔ موت کا تعفن پھیل چکا ہے۔ اگر امید کی وہ باقی ماندہ کرن نہ ہوتی جو کبھی ختم نہیں ہوتی تو بے بسی قریب قریب ایک ناگزیر مقدر بن چکی ہے۔ اس کے بجائے، یہ امید ایک مدھم دھڑکن کے طور پر اس امت کے دل میں باقی رہ گئی ہے جو اپنے رب سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان رکھتی ہے، اور اس کے لیے اس حقیقی لمحے کے انتظار میں ہے تاکہ اس زندگی کو ایسے دوبارہ بحال کیا جا سکے، جس میں ایک اسلامی طرزِ زندگی کے علیحٰدہ ہو جانے کے بعد اس کی حکمرانی کا دوبارہ احیاء ہو، اور جس میں دین کی عظمت بحال ہو جبکہ اس کی ساری گرہیں کھل گئی ہیں، اور جس میں انکار کرنے والوں اور غافلوں کے لئے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کرے گا، چاہے یہ کچھ دیر بعد ہی کیوں نہ ہو، اور یہ کہ تبدیلی ایمان اور صبر کے ساتھ ہی آتی ہے، اور یہ بھی کہ نتیجہ نیکوکاروں کے لئے ہی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ﴾
”یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم پر وحی کرتے ہیں۔ اس سے پہلے تم انہیں نہ جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم نے اس سے پہلے انہیں جانا تھا۔ تو صبر کرو، یقیناً اچھا نتیجہ متقیوں کے لئے ہے“ (سورۃ ھود؛ 11:49)۔ یہ وہ بات ہے جو ہمارے رب سبحانہ و تعالیٰ نے سورہ ھود میں بیان فرمائی، جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«شَيَّبَتْنِي هُودٌ وَأَخَوَاتُهَا»
”سورہ ھود اور اس کی بہنوں نے مجھے بوڑھا کر دیا“۔
لہٰذا، جب مصیبت کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں، اور راتیں سیاہ ہو جاتی ہیں، روشنی ایک خاموش سی موم بتی کی مانند آنے لگتی ہے، جو کسی حد تک تاریکی کو دور کر دیتی ہے، اور کان میں سرگوشی کرتی ہے کہ ہر تاریک رات کا اختتام ایک روشن صبح ہوتا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ مؤمن ناامیدی ومایوسی کا شکار ہو جائے۔ بلکہ، آپ اس قوی یقین کے حامل مؤمنین کو دیکھتے ہیں جو اپنے اندر امید اور تبدیلی کے بیج لئے ہوئے ہیں، چاہے آزمائشیں کتنی ہی شدت اختیار کر لیں اور مصیبتیں کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں۔ بے شک، آزمائشیں بہت شدید ہیں، پھیلی ہوئی ہیں اور تاریکی ہے، لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اذن سے قریب ہی ہے کہ وہ آزمائشیں ہٹ جائیں گی اور راحت ملے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلا الضَّالُّونَ﴾
”(ابراہیم) نے کہا، اور کون اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہوتا ہے سوائے ان کے جو گمراہ ہیں؟“
(الحجر؛ 15:56)۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ﴾
”اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقیناً اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں“۔ (الیوسف؛ 12:87)
اِس میں کوئی شک نہیں۔ یہ بات اسلام کی فتح، غلبے اور اس دین کے تمام دیگر ادیان پر غالب آنے کی حتمیت کے بارے میں آیات و احادیث کی کثرت سے ثابت ہوتی ہے۔
امت کے دشمن ایمان اور اسلامی عقیدہ سے جڑی روحانی بنیادوں پر عقل و دانش کی رفعتوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہوئے اس فتح میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں، اور ایک نفسیاتی شکست پیدا کر دینا چاہتے ہیں جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دے۔ تاہم، جس شدید صدمے کا امت نے غزہ پر جنگ کے دوران سامنا کیا، اس نے اس امت میں ایک مشترکہ اجتماعی احساس پیدا کیا ہے۔ وہ احساس حقیقی تبدیلی کے لئے سنجیدگی سے سوچنے کی ترغیب دیتا ہے اور استعمار کے شکنجے سے حتمی نجات کے راستے کی تلاش کی تحریک دیتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ غزہ جیسے سانحے پھر کبھی نہ ہوں، خواہ وہ غزہ میں ہوں یا کسی بھی اور اسلامی سرزمین پر۔
تاہم، جو لوگ اعلیٰ سطح کی آگاہی تک پہنچ چکے ہیں، اور جن میں اسلامی فکر اس قدر مرکوز ہے کہ وہ صرف آگاہی اور فہم کی تحریک کے ساتھ زمین پر نظریے کو عملی طور پر نافذ کرنے کی سمت میں عملی طور پر نکل پڑے ہیں، انہیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بیدار کرنے اور انہیں متاثر کرنا ضروری ہے۔ ایسا کرنے کے لئے انہیں چاہئے کہ سوچ کو متحرک کریں، فہم کو روشن کریں، اور اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے سنجیدہ کام کی طرف رہنمائی فراہم کریں، اور اس دشوار آزمائش کے بعد مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کی نجاست سے آزاد کرائیں ۔ اور یہ اس لئے ہے کہ امید لوگوں کے دلوں میں اپنا راستہ نکال ہی لیتی ہے۔ اور اس لئے تاکہ شک کرنے والوں اور انکار کرنے والوں کو اسلامی فکر، یا اس فکر کے ہم آہنگ منہج پر شک ڈالنے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔ جو کوئی بھی اس بیدار گروہ اور قیادت کرنے والی جماعت کو، جو اس منصوبے کا بار اٹھائے ہوئے ہے، شدید تنقید کے ذریعے ٹارگٹ کرتا ہے اور اس گروہ کی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتا ہے، اور کافر استعماری طاقتوں کی مرضی کے مطابق اس جماعت اور افواج میں موجود مخلص کمانڈروں کے درمیان فاصلے پیدا کرتا ہے، وہ حقیقت میں اس امت کو نشانہ بنا رہا ہے جو جکڑی تو ہوئی ہے لیکن احیاء کی راہ پر آ رہی ہے، اور اس امت نے اپنے اندر خود کو بیدار کرنا شروع کر دیا ہے۔ امت نے دوبارہ احیاء کے راستے پر چلنا شروع کر دیا ہے جو اس امت کو اس کے قدموں پر کھڑا کر دے گا اور اسے پستی اور کمزوری کی گہرائیوں سے نکال کر عظمت اور بلند مقام کی بلندیاں تک لے جائے گا۔ پھر ہم یہ مصمم یقین بھی رکھتے ہیں کہ تکالیف اور آزمائش کی انتہا پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد اور فضل ضرور آتی ہیں۔
دوسری طرف، ایسی حقیقی اور انقلابی تبدیلی جو ہمیں اس تکلیف دہ حقیقت سے باہر نکال سکتی ہے، اس کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کے تناظر میں، کوئی بھی اس ہچکچاہٹ اور بے عملی کی شدت کا ادراک کرنے سے قاصر رہ سکتا ہے جو امت کی مؤثر اور قابل قوتوں کو اسلام اور مسلمانوں کی حمایت کرنے سے روکے ہوئے ہے، اور ان قابل ترین قوتوں میں سب سے اولین قوت مسلمانوں کی افواج ہیں جو اپنی بیرکوں میں مقید ہیں۔ لہٰذا، یہ نہایت ضروری ہے کہ ہمیں ایسی شافی آگاہی کی تلاش کرنی چاہیے جو ہمیں تنزلی کی اس حقیقت سے باہر نکالے جو کہ نام نہاد جمہوریت کے تحت سرمایہ داریت کے نفاذ کے باعث آئی ہے، اور جو قوم پرستی کے تنگ پنجروں میں ہمیں ایسے بند کئے ہوئے ہے کہ دم گھٹتے گھٹتے موت کے قریب ہے اور اس سرمایہ داریت نے ہمیں ان فکری و قانونی بستیوں کے ملبے تلے بے جان لاشوں میں تبدیل کر دیا ہے، جو استعمار نے ہمارے ممالک میں بنا لی ہیں۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ہمیں غزہ کی جنگ کے پس منظر میں، اور تمام اسلامی ممالک پر منظم روشن خیالی کی بمباری کے بعد، کچھ انتہائی اہم اور شاید پریشان کن سوالات اٹھانے پر مجبور کیا۔ اور جواب دینے کے لئے دانستہ طور پر ایک چونکا دینے والے سوال کا انتخاب کیا گیا ہے، ان شاء اللہ : — کیا یہ قابلِ فہم ہے کہ کمیونزم کا نظریہ ایک ایسےانقلاب کی بنیاد بنا جس نے اس سوویت یونین کے بیج کو جنم دیا، جس نے دہائیوں تک دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو ٹکر دئیے رکھی اور اس کا مقابلہ کرتا رہا؟ جبکہ اس کے برعکس، مسلمان اپنی حقیقت کو کیوں نہیں بدل پا رہے؟ کیا وہ اسلامی فکر پر مبنی ایک ریاست قائم کرنے، اور دین کے دشمن — امریکہ اور اس کے یہودی پٹھوؤں — کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں؟
بولشویک انقلاب، کمیونسٹ ریاست کے قیام کا راستہ
گذشتہ صدی کے آغاز میں، مارکسی سوچ زرعی روس میں ابھری۔ ریاست کے حمایت یافتہ کمیونزم اور سوشلسٹ خیالات نے اس مارکسی سوچ کو بیس سال (1917ء سے 1939ء) کے عرصہ میں ایک غالب طاقت میں تبدیل کر دیا۔ یہ صرف ایک فلسفیانہ خیال ہی تھا جو جرمن فلسفی کارل مارکس کے دماغ میں ابھرا، جس نے اپنے شیطانی خیال کو لادینیت کے جھکاؤ کے ساتھ تیار کیا، اور یہ دعویٰ کیا کہ کائنات، بشمول اس میں موجود ہر چیز، مادہ ہے، جو صرف مادی ترقی کے ذریعے چلتا ہے۔ مارکس نے کائنات، انسانیت، اور زندگی اور خالق کے تصور کے درمیان کسی بھی تعلق کو مسترد کر دیا۔ اسی بنیاد پر مارکس نے اپنی اقتصادی سوچ اور نظریہ کو قائم کیا، نیز معاشرہ کے متعلق اس کا نکتۂ نظر بھی اسی سوچ پر تھا۔ یوں یہ ایک عقلی نظریہ بن گیا جس سے نظامِ زندگی، معاشرے اور ریاست کے لئے ایک نظام ابھرا، حالانکہ اس نظریہ میں فکری کمزوریاں، بنیادی اخترائیں، طریقہ کار کے تضاد اور حتیٰ کہ انسانی فطرت کی خلاف افکار بھی موجود تھے۔ یہ نظریہ ایک ریاست میں مجسم ہو گیا، جس نے اسے تمام اقوام اور لوگوں کے لئے ایک تہذیبی منصوبے کے طور پر اختیار کر لیا۔
1848ء میں کارل مارکس اور اس کے ساتھی اور ہم خیال، فریڈریک اینگلز نے ایک پمفلٹ، ”کمیونسٹ منشور“ شائع کیا، جو طبقاتی جدوجہد اور سرمایہ داریت کے مسائل کا تجزیہ کرتا تھا۔ یہ اشاعت ایک نہایت مشہور اور بکنے والی تحریر بن گئی، اور اس نے سوویت یونین کی قیادت میں کمیونسٹ بلاک کے نظریاتی مؤقف کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا، وہ سوویت یونین جو گزشتہ صدی کے دوران دہائیوں تک مغرب کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا تھا۔ اس پمفلٹ کی تاریخی اہمیت اس حقیقت میں ہے کہ یہ مارکسی نظریے کا پہلا مظاہرہ تھا، جس کے بارے میں لینن نے الفاظ استعمال کئے کہ ”زبردست وضاحت اور درستگی کے ساتھ“بیان کیا گیا۔
مارکس 1883ء میں مر گیا۔ اس کی زندگی کے دوران کوئی ریاست اس کے نظریات پر قائم نہیں ہوئی تھی۔ حالانکہ کمیونسٹ خیالات 19ویں صدی کے پہلے نصف میں پھیلنا شروع ہو گئے تھے، اور مارکس نے اپنی پکار کو پیرس، برسلز اور لندن تک پہنچایا، مگر اس صدی میں اس کے ان خیالات کی بنیاد پر کوئی انقلاب رونما نہ ہوا۔ کسی سیاسی جماعت نے اس منصوبے کو اختیار کرنے کے لئے پیش قدمی نہ کی، خاص طور پر ان ترقی یافتہ صنعتی سرمایہ دارانہ ممالک میں جہاں مارکس کو توقع تھی کہ یہ منصوبہ ان ممالک کا مرکزی نقطۂ نظر بن جائے گا، کیونکہ سرمایہ داریت کے ادوار کے بحران کے سائے میں ان ممالک کے پیداوار کے ذرائع میں ترقی ہوئی تھی اور ان کی محنت کش طبقہ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔
تاہم، تاریخی حقیقت نے یہ دکھا دیا کہ پہلا کامیاب کمیونسٹ انقلاب ایک غیر متوقع ملک میں وقوع پذیر ہوا۔ زرعی، روسی سلطنت میں 1905ء میں ایک انقلاب آیا اور ناکام ہو گیا۔ فروری 1917ء کا انقلاب بھی ناکام رہا۔ بولشویکیوں نے انتہائی تیز رفتاری سے اپنے عہدوں کو منظم کیا۔ اور لینن کی قیادت میں اکتوبر 1917ء کا انقلاب کامیاب ہو گیا۔ اس انقلاب کی کامیابی سے کمیونسٹ خیالات میں اعتماد کی عکاسی ہوتی ہے، جو دنیا کے اس خاص گوشے میں تبدیلی لانے کے عزم میں تبدیل ہوا۔ یہ سچ ہے کہ جرمنی نے لینن اور اس کی تحریک کی حمایت کی تھی تا کہ جنگِ عظیم اول میں برطانیہ اور فرانس کی طرف سے ماسکو کے خلاف بنائے گئے اتحاد سے روس کو کھینچ کر باہر نکالا جا سکے۔ اسی لئے، برطانوی اور فرانسیسی حمایت کے ساتھ سوشلسٹ مخالفین کے جوابی انقلاب پسند جلد ہی حرکت میں آ گئے۔ تاہم، کمیونسٹ قیادت میں نئی حکومت 1920ء میں ان مخالفین کو کچل دینے کے قابل ہو گئی۔
بولشویک انقلاب کی کامیابی کے پیچھے آخر کیا راز ہے، جس نے مغرب کے اس منصوبے کو ختم کر دیا کہ سرمایہ داریت کی تہذیبی اجارہ داری انسانیت کی قیادت کرے، اور انہوں نے مغرب کے مقابلے میں ایک صنعتی ریاست قائم کی، اور یہاں تک کہ 1957ء میں دنیا کا پہلا خلائی سیارہ بھی لانچ کرنے کے قابل ہو گئے، جس نے امریکہ کو حیرت میں ڈال دیا؟
کمیونزم کے یہ افکار، حالانکہ یہ ایک کفر عقیدہ اور لادینیت پر مبنی ایک فلسفیانہ خیال ہے، بہرحال یہ افکار لوگوں کے ایک گروہ کی قیادت کرنے کے قابل ہو گئے اور انہیں نہ صرف حکومت کرنے کے قابل بنایا، بلکہ انہیں بڑی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی دی، جس کی چار اہم وجوہات ہیں، جو کہ توجہ اور غور کرنے کے لائق ہیں:
اول : ایک عقیدے کا وجود ہونا
نظریاتی نقطۂ نظر سے کمیونسٹ فکر اس قابل تھی کہ کائنات، انسانیت اور حیات کا ایک جامع تصور فراہم کرے اور، اگرچہ غلط طور پر لیکن بہرحال اس فکر نے زندگی کا وجود ہونے کے سوالات کا جواب دیا۔ اس نظریہ نے کائنات کی تفصیلات پر دوبارہ غور کیا اور مادے کو ابدی اور قدیم سمجھتے ہوئے پوری دنیا کو مادے تک محدود کر دیا۔ یوں اس طرح اس نظریہ نے حیات کے بارے میں ایک خاص نقطۂ نظر پیش کیا، جو کمیونسٹ ریاست کی فکری اور فلسفیانہ بنیاد بن گیا۔ حتیٰ کہ اس نظریہ نے عقل کو بھی دماغ پر مادہ کا عکس قرار دے دیا۔ اسی لئے، حزب التحریر نے اپنی کتاب ”مفاہیم“ میں کہا ہے: ”کمیونسٹ مفکرین کی طرف سے عقل کی تعریف بیان کرنے کی کوشش وہ واحد کوشش ہے جو قابلِ ذکر ہے اور جس پر غور و خوض کرنا چاہیے، کیونکہ یہ ایک سنجیدہ کوشش تھی، جو صرف اس بات سے انکار پر ان کی غلط ہٹ دھرمی کی وجہ سے ناکام ہو گئی کہ اس کائنات کے وجود کا ایک خالق ہے“۔
دوئم : ایک فکری قیادت
منطقی مادیت پرستی (dialectical materialism) کمیونسٹ فلسفہ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اس کے مطابق معاشرت میں تضاد اور کشمکش ہوتی ہے جو طبقاتی اور معاشی تفاوت کا نتیجہ ہے۔ یہ تضاد اور کشمکش سماجی اور تاریخی ترقی کا محرک سمجھی جاتی ہے، نیز اسے اقتصادی و سماجی ڈھانچوں کو ایک زیادہ انصاف پسند نظام کی طرف تبدیل کرنے کا محرک سمجھا جاتا ہے۔ کمیونسٹ نظریہ ان تضادات کے ساتھ اس طرح پیش آتا ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھ سکیں اور سماجی تبدیلی کو تحریک دے سکیں۔ اس لئے کمیونسٹ فکر میں عام طور پر اٹھایا جانے والا منطقی مادیت پرستی کا طریقہ (ڈائلیکٹیکل)، جو عوامی مباحثے اور میڈیا میں تضادات کے اٹھانے پر انحصار کرتا ہے، وہ طریقہ منطقی مادیت پرستی (dialectical materialism ) ڈائلیکٹیکل مٹیریلزم کے تصور کے تحت آتا ہے۔ یہ طریقہ شعور کو اُجاگر کرنے اور فکری بلندی پیدا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ کمیونزم سمیت سوشلسٹ نظریہ نے ایک فکری قیادت اختیار کرلی؛ جو مادیت اور مادی ترقی تھی۔ اسی بنیاد پر اس نظریہ نے اپنے نظاموں کو منظم کیا، ان نظاموں کا پرچار کیا، اور انہیں ہر جگہ نافذ کرنے کی کوشش کی۔
سوئم : نظریاتی سیاسی جماعت
مارکسی خیال تب تک محض ایک فلسفیانہ نظریہ ہی رہا تھا جب تک کہ اس نظریہ کو نوجوان ولادیمیر لینن نے اپنا نہ لیا، جس نے اپنا قانونی پیشہ ترک کر کے خود کو صرف سیاسی سرگرمیوں کے لئے وقف کر دیا تھا۔ لینن نے کمیونسٹ خیال کو تبدیل کر کے جو تصور پیش کیا وہ ”مارکسی لیننزم“ کے طور پر جانا جانے لگا۔ لینن میں کمیونسٹ فکر اور فلسفہ کے تحت حقیقت کی ترجمانی کرنے اور اس کے متغیرات کے ساتھ نمٹنے کی صلاحیت تھی تاکہ ایک ”انقلابی متبادل“ کو عمل میں لایا جا سکے اور اس کا نفاذ کیا جائے، جیسا کہ اس نے اپنی کتابوں میں بھی بیان کیا ہے۔ تاہم، اسی دوران لینن کا یہ یقین تھا کہ تبدیلی افراد کے ذریعے نہیں آ سکتی۔ اس کے بجائے وہ یقین رکھتاتھا کہ تبدیلی صرف ایک جماعت کے ذریعے آ سکتی ہے۔ اس سلسلے میں اس کے مشہور بیانات میں سے ایک ہے: ”ایک پارٹی ایک طبقے کا پیشوا ہوتی ہے، اور اس کا فرض ہے کہ وہ عوام کی قیادت کرے، نہ کہ صرف عوام کی اوسط سیاسی سطح کی عکاسی کرتی ہو“۔ [لینن، ” زرعی سوال پر تقریر“، 14 نومبر (1917)]
اس لئے انفرادی قائدین اور جماعت کے ڈھانچے کے درمیان تعلق باہمی تفاعل کا تھا۔ لینن، ٹراٹسکی اور ان کے ساتھیوں نے اپنے خیالات کو ترویج دینے اور اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے منظم پارٹی کی حمایت پر انحصار کیا۔ اسی دوران، پارٹی کی قیادت نے اپنے رہنماؤں کے پیش کردہ تصور اور ان کی اسٹریٹجک منصوبہ بندی کی صلاحیت سے اپنی قانونی حیثیت اور اثر و رسوخ حاصل کیا۔ اس پارٹی کی تقریباً تمام روس بھر میں شاخیں موجود تھیں۔
لہٰذا، روسی انقلاب میں بولشویکوں کی کامیابی افرادی قیادت، جیسے لینن، اور بولشویک پارٹی کے منظم ڈھانچے اور تنظیم کے باہمی تعامل کا نتیجہ تھی۔ پارٹی تنظیم نے ضروری بنیادی ڈھانچہ اور حمایت فراہم کی، جبکہ انفرادی قائدین نے تحریک دی، تصور فراہم کیا اور وہ حتمی فیصلے کئے جو عوام کی رہنمائی کرنے، انہیں متحرک کرنے اور انقلاب کی قیادت کے لئے درکار تھے۔ اس لئے لینن نے اپنی کتاب ”ریاست اور انقلاب: ریاست کا مارکسی نظریہ اور انقلاب میں ادنیٰ طبقہ کے کام“ میں جمہوری پارٹیوں کے نقطہ نظر پر تنقید کی، جو تدریجی اصلاحات اور تدریج پسندی پر یقین رکھتے تھے، اسے یہ یقین تھا کہ تبدیلی صرف ایک مکمل، جامع انقلاب کے ذریعے ہی آ سکتی ہے۔
بولشویک پارٹی ایک آئیڈیالوجیکل پارٹی تھی، جو اپنے مضبوط تنظیمی ڈھانچے، مضبوط قیادت، پارٹی کے سخت نظم و ضبط، اور پیروکاروں، کارکنوں اور عوام کے ساتھ رابطے قائم کرنے کی صلاحیت کے لئے مشہور تھی۔ اس پارٹی کے عہدیداروں کی درجہ بندی نہایت واضح طور پر تیار کی گئی تھی، جس میں ان کے ذمہ کام اور ان کے کرداروں کو واضح تقسیم کے ساتھ بیان کیا گیا تھا، اور انہی ذمہ داریوں نے پارٹی کے حکمت عملی کے مؤثر نفاذ کو آسان بنایا۔ بولشویکوں نے پیچیدہ قسم کے خفیہ نیٹ ورک اور انقلابی سیل بھی تیار کئے ہوئے تھے، تاکہ اراکین کے درمیان مؤثر پیغام دہانی کو یقینی بنایا جا سکے، خاص طور پر اس وقت جب انہیں شہنشاہی حکومت اور پھر عبوری حکومت کی طرف سے دباؤ کا سامنا تھا۔ اس دور میں مصنوعی ذہانت اور الیکٹرانک مواصلاتی رابطے موجود نہیں ہوا کرتے تھے۔ یوں اس طرح، پارٹی پیش قدمی کرتی رہی، اور اپنے منصوبوں اور طریقۂ کار میں جدید تھی، تبدیل ہوتے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی تھی اور اپنے فائدے کے لئے سیاسی مواقع کو استعمال کر لینے کے قابل بھی تھی۔ یہ پارٹی ایمرجنسی حالات میں اکٹھا ہونے کو بھی تیار تھی، اور اہم موڑ پر سیاسی سرگرمی کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
چہارم : فوج کی حمایت حاصل کرنا
بغور مشاہدہ کرنے والے کسی بھی شخص سے یہ حقیقت چھپی ہوئی نہیں ہے کہ کمیونزم “انقلابی تشدد” کا نظریہ پیش کرتا ہے اور اسے انقلاب کی کامیابی کے لئے ضروری شرط سمجھتا ہے۔ انقلابی قوتوں نے حکام کے خلاف مسلح جماعتوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی تاکہ انہیں اقتدار سے ہٹایا جا سکے۔ تاہم، انقلاب کی بار بار ناکامیوں کے بعد، بولشویکوں نے یہ سمجھ لیا کہ ان کے پاس فوج پر انحصار کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے اور یہ کہ انہیں شاہی فوج کے افسران اور سپاہیوں کی حمایت حاصل کرنی ہے، خاص طور پر اس لئے چونکہ ان افسران اور سپاہیوں میں سے بہت سے افراد موجودہ حالات سے ناخوش تھے۔ یوں اس طرح، بولشویک پارٹی اور سوویتوں، کارکنان اور سپاہیوں کی کونسل کے درمیان نہایت محتاط روابط قائم ہوئے، جس نے بغاوت کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے میں مدد کی، اور سوویت یونین کے دوسرے بڑے شہر، پیٹروگراڈ پر کنٹرول حاصل کرنے میں بھی مدد کی۔ پھر، خانہ جنگی کے دوران، ٹراٹسکی کی قیادت میں ریڈ آرمی نے، جو اصل میں ایک رضاکار فورس تھی، اس نے ڈسپلن اور ہم آہنگی کی اعلیٰ سطح کا مظاہرہ کیا، یہ سب بعض بولشویک افراد کی مخالفت کے باوجود شاہی فوج کے سابقہ افسروں کی مدد سے ممکن ہوا، جن کے پاس فوجی تجربہ موجود تھا۔
یوں اس طرح سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کمیونزم نظریہ کے انسان کی فطرت سے کھلا متضاد ہونے کے باوجود یہ چار عوامل جب آپس میں ملے تو انہوں نے بولشویک انقلاب کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا، اور شہنشاہئیت زدہ روس کی باقیات پر سوویت یونین کا قیام عمل میں آیا۔ تاہم، اگر ہم ایک پانچویں عامل کو بھی قیاس کریں تو وہ لازماً عوام کا مظلوم اکثریتی حصہ ہے، جو مفلسی، غربت اور محرومی کا شکار تھا۔ یہی وہ وجہ تھی جس نے عوامی رائے کو سرمایہ داریت کو طاقت کے ذریعے گرا دینے کے خیال پر آمادہ کیا۔
اس حوالے سے، حزب التحریر نے کمیونزم کی فکری قیادت پر اپنے کلام میں اس کی اصل حقیقت کو یوں بیان کیا: ”لہٰذا، نوع انسان کی جبلی فطرت کے پہلو سے کمیونزم میں فکری قیادت ایک ناکام قیادت ہے۔ یہ لوگوں کو صرف ان کی روزی روٹی کی طرف متوجہ کرکے اپنا کام نکال لیتی ہے۔ یہ بھوکے لوگوں، ڈرے ہوئے اور غمگین لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ جو لوگ اس نظریہ کی پیروی کرتے ہیں وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی فکر میں کمزور ہوتے ہیں، جو زندگی میں ناکام ہوتے ہیں اور اس سے ناخوش ہیں، اور ایسے مکار لوگ جو جب منطق کے فلسفہ پر بات کرتے ہیں تو خود کو دانشور ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا باطل پن اور خرابی اس قدر واضح ہے کہ وہ حواس اور عقل دونوں سے ثابت ہوتا ہے۔ منطق کا فلسفہ طاقت کے زور پر لوگوں کو اپنے نظریہ کے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے ظلم، جبر، انقلاب، افراتفری، تباہی اور عدم استحکام اس نظریہ کے سب سے اہم عناصر ہیں“۔
تبدیلی کے وہ اصول جن پر حزب التحریر عمل پیرا ہے
یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ایک گمراہ کن فلسفیانہ خیال جیسے سوشلسٹ یا کمیونسٹ خیالات فکر کی اس حد تک بلندی پر پہنچ گئے کہ ایک پورے معاشرے کی شناخت بن گئی، جس پر ایک بڑی طاقت کا وجود قائم ہو گیا، تو پھر آخر امت مسلمہ کو اسلامی فکر کی بنیاد پر ایک ریاست قائم کرنے اور اس ڈگمگاتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظریہ کو ٹکر دینے میں کیا شے مانع ہے جبکہ امت مسلمہ کو فتح اور طاقت دینے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے ؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں درج ذیل نکات پر غور کرنا چاہیے:
1- اسلامی عقیدہ ایک عقلی عقیدہ ہے جس سے ایک نظام پھُوٹتا ہے۔ اسلامی عقیدہ، کائنات، انسانیت اور حیات کے بارے میں ایک جامع فکر ہے۔ اسلام میں قیادت ایک فکری قیادت ہوتی ہے، جو ایک درست احیاء کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اسلامی عقیدہ روحانی بنیادوں پر عقلی و فکری عروج ہے، برعکس کمیونزم کے جو فطرتاً ہی انسانی جبلت کے متضاد ہے۔ لہذا، اسلام ایک ایسی فکری اساس ہے جس پر زندگی کے تمام جزوی تصورات قائم ہیں۔ اسلام ہی حقیقی احیاء کی بنیاد ہے کیونکہ یہ انسانیت کے لئے اس سب سے بڑے مسئلے، وجۂ حیات کو اس انداز میں حل کرتا ہے جو عقل کو قائل کرتی ہے، انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے اور دل میں سکون لاتا ہے۔
2- شریعت کے احکام حقائق کو حل کرتے ہیں۔ لوگوں کی رہنمائی کے لئے جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ شریعت کے احکام حقیقت پر کس حد تک لاگو ہوتے ہیں۔ اس کے لئے حقائق پر شرعی احکام کا درست طریقے سے اطلاق کرنا ضروری ہے، اور اس طرح سے کہ اسلام اور اس کا پیش کردہ حل اس حقیقت کے علاج کو واضح کرتا ہو جسے تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ حل امت کا اپنے دین اور عقیدہ پر اعتماد کو بحال کرتے ہوئے معاشرے کے اس تصور کو بھی اجاگر کرتا ہو جو اسلام کے اصولوں پر فروغ پا رہا ہو۔ اس کے لئے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا حکم دینا بھی ضروری ہے، جس میں حکمران کے معاملے میں اسے نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی شامل ہے، اور لوگوں کو تبدیلی لانے کی ترغیب دینا بھی شامل ہے۔ کیونکہ حقیقت کو بدلنا امت پر اجتماعی طور پر فرض ہے، اور یہ کام کسی فرد یا گروہ کے ذمہ ہی مخصوص نہیں ہے۔ اسلام، کمیونزم سے یکسر مختلف ہے جہاں تبدیلی کے عمل کو چلانے کے لئے تضادات اور تصادم کو بھڑکایا جاتا ہے۔
3- اسلامی طرزِ حیات کے احیاء اور اسلامی ریاست قائم کرنے کا شرعی طریقہ اسلام کی بنیاد پر ایک نظریاتی سیاسی ڈھانچہ ہے، اور یہ رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کی تقلید کرنا ہے جس کے ذریعے آپ ﷺ نے مدینہ کی حالت کو بدلا اور اسے دار الاسلام میں تبدیل کر دیا۔ اسی لئے 1953ء میں اس دور کے مجدد، شیخ تقی الدین رحمہ اللہ علیہ کے ہاتھوں امت میں حزب التحریر قائم ہوئی تھی۔ یہ نظریاتی سیاسی جماعت فکر اور احساس کا معاملہ ہے، جو معاشرے پر اثر انداز ہونے کی جدوجہد میں ہے، سرگرم طور پر کام کر رہی ہے، نہ کہ غیر فعال طور پر، اور کسی سے متأثر ہونے کی بجائے معاشرے پر اثر انداز ہو رہی ہے، چاہے حالات و واقعات کیسے ہی تندوتیز کیوں نہ ہوں، اور اس کے سامنے چیلنجز کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ حزب اقتدار کی باگ ڈور تھامنے کو ہے، اور معاشرے میں اس جامع فکری اور معاشرتی انقلاب کو لانے کے لئے پُرعزم ہے جو وہ قائم کرنا چاہتی ہے۔
حزب نے ابتدا ہی سے اس بات کی اہمیت کو سمجھا کہ اسے ایک فکری، منظم جماعت کے طور پر معاشرے میں داخل ہونا ہے، جس میں تنظیم سازی کا پہلو واضح اور نمایاں ہو اور وہی پہلو ہی مؤثر ہو، اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا پہلو شامل نہ ہو۔ درحقیقت، حزب نے یہ دیکھ لیا تھا کہ کسی بھی معاملے میں اگر جماعت کا کوئی بھی عمل تنظیمی امور کے پہلو کے بغیر ہو، یا اس میں کسی دوسرے پہلو کو شامل کیا جائے، تو یہ عمل نہ صرف ناکامی کی طرف لے جائے گا، بلکہ حزب کو اپنی جدوجہد اور اس کے تنظیمی پہلو دونوں میں ہی کمزور کر دے گا۔
4- اسلامی منصوبے کا عملی نفاذ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک امت کے اندر موجود رائے عامہ اہلِ قوت، یعنی تحفظ اور دفاع فراہم کرنے والوں کی نصرۃ کو حاصل نہ کر لے۔ اس لئے مسلم علاقوں میں فوجی یا قبائلی رہنماؤں سے نصرۃ کا طلب کرنا اس طریقے کے لئے ایک شرعی حکم ہے۔ اسلام کے لئے ضروری ہے کہ اس اس کے پاس طاقت، اختیار اور ایک خود مختار ریاست ہو تاکہ وہ اپنے شریعت کے احکام کو نافذ کر سکے اور اپنے اس پیغام کو آگے لے جا سکے، اور یہی وہ ریاست ہے جسے رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے عین مطابق حزب قائم کرنا چاہتی ہے۔ تاہم، ماضی کے اور جدید دور کے سیاسی حقائق اور تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی ریاست کا قیام وہاں کے اہل قوت طبقہ کے ذریعے سے ہی ہوتا ہے۔ اور یہ طریقہ کمیونزم کی طرف سے کوئی نئی ایجاد نہیں ہے بلکہ تبدیلی لانے کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی سنت ہی یہی ہے۔
یہی چار نکات ہی وہ بنیادیں ہیں جن پر حزب التحریر نے آغاز سے ہی اپنی بنیاد رکھی ہے۔ حزب اسلامی امت کو اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ دعوت دیتی ہے کہ حزب کے ساتھ مل کر کام کریں اور اس کے ساتھ اکٹھے ہوں تاکہ اسلام کے اس منصوبے کو حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنایا جا سکے، اور اسے ایک ایسی ریاست میں قائم کیا جا سکے جو اسلام کو نافذ کرے اور اس کا سلامتی کا پیغام ساری دنیا تک پہنچائے۔ گرچہ حزب کا طریقہ کار کمیونزم سے بعض پہلوؤں میں مشابہت رکھتا ہے، لیکن اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ طریقہ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی سنت کے طور پر لئے جاتے ہیں۔ اس طریقہ کار میں رائے عامہ پیدا کرنا، رائے عامہ پر نظر رکھنا اور انفرادی اور اجتماعی طور پر لوگوں کی ثقافت سازی کے ذریعے رائے عامہ کو بنیادی تصورات کے ساتھ ڈھالنا شامل ہے۔ تاہم، ایک مؤثر تبدیلی لانے کے لئے اسلام کا طریقہ کمیونزم سے اس لئے مختلف ہے، کیونکہ یہ پر تشدد اقدام کو تبدیلی کے عمل کا ذریعہ بنانے کو مسترد کرتا ہے اور اس کے بجائے ریاست قائم کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے طریقۂ کار پر ہی سختی سے کاربند ہے۔
لہٰذا، آج امت پر جو چیز لازم ہے — جب کہ غزہ کے المیے کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں قوم پرستی کے بُت گر چکے ہیں — وہ یہ نہیں کہ فتح کے لئے کوئی تاریخ مقرر کر لیں، کیونکہ اس کا علم تو صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس ہے، بلکہ لوگوں پر یہ لازم ہے کہ وہ ضروری اقدامات کریں اور اُن لوگوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر مکمل توکل اور اس کے وعدے کے پورا ہونے پر کامل یقین کے ساتھ اس مقصد کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ فتح کی تمام نشانیاں اور اسلام کی عنقریب عملی تکمیل کے لئے اللہ کی طرف سے تیار کردہ تمام مظاہر دراصل محض بشارتیں ہیں، جو اُن دلوں کو تسلی دیتی ہیں جو پہلے ہی اس فتح کے یقینی ہونے پر مصمم یقین رکھتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَمَا جَعَلَهُ اللهُ إِلَّا بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ﴾
”اور اللہ نے اسے تمہارے لئے خوشخبری اور تمہارے دلوں کی سکونت کا ذریعہ بنایا ہے، اور مدد صرف اللہ کی طرف سے ہی آتی ہے۔ بے شک اللہ غالب، حکمت والا ہے “(سورة الأنفال؛ 8: 10)۔
اسلامی ریاست کے قیام کی جانب امت کی تحریک اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کی رہنمائی کے لئے کوئی سیاسی قیادت نہ ہو، ورنہ امت بے ربط، پیچیدہ اور خود ساختہ طریقے سے عمل کرے گی۔ بلکہ یہ کام صرف حزب کے گرد یکجا ہو کر اور اس کی دعوت کو قبول کر کے ہی ممکن ہے تاکہ قومی شناخت کے بتوں کو تباہ کیا جا سکے اور ان کے کھنڈرات پر اسلامی ریاست قائم کی جا سکے، اور پھر افواج کو ارضِ مبارک کو یہودیوں کی غلاظت سے آزاد کرانے کے لئے حرکت میں لایا جائے۔
حزب التحریر اور قیادت حاصل کرنا
امت کے ساتھ حزب کے کام میں جو چیز لازم ہے وہ یہ ہے کہ وہ مسلسل یہ کوشش کرتی رہے کہ امت کی عوام میں اور عام لوگوں کے درمیان حزب کا اثر و رسوخ اور مقبولیت بڑھے۔ یہی وہ چیز ہے جسے بعض لوگ ’عوامی بنیاد‘ (popular base) کہتے ہیں، کیونکہ امت ہی اقتدار کی فطری حمایت ہوتی ہے۔ امت ہی وہ مؤثر ذریعہ ہے جو ان غیر فطری سہاروں کو ختم کر سکتی ہے، جو اس موجودہ حکمرانی کی پشت پناہی کرتے ہیں اور عوام کے سینوں پر مسلط ہیں۔ امت ہی وہ مؤثر عنصر ہے جو ان ذرائع کو کمزور کرتا ہے جو موجودہ اقتدار کو سہارا دئیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا، اقتدار کو فطری طریقے سے حاصل کرنے کا عملی طریقہ یہ ہے کہ امت کے عوام اور عام لوگوں کے اندر سے ایک وسیع تر عوامی بنیاد قائم کی جائے، جو نہ صرف اقتدار کے حصول کا براہِ راست ذریعہ بنے بلکہ اسلام کی حفاظت کرنے والا مضبوط قلعہ بھی ہو، اور اس کے مقام کو بلند کرنے والا ذریعہ بھی ہو۔
حزب التحریر صرف اپنے افکار اور آراء ہی نہیں دیتی۔ بلکہ وہ اپنی تجاویز بھی دیتی ہے، اور ان پر عمل بھی کرتی ہے تاکہ وہ معاشرے کے ستونوں کے ذریعے طاقت حاصل کرے — یعنی عوامی رائے کی طاقت، افرادی طاقت، اور اہلِ قوت اور بااثر افراد کی طاقت۔ حزب کا کاموں کا حاصل دراصل ان میں اضافہ کرنا ہے، یعنی وہ افکار جنہیں حزب نے پھیلایا ہو، اور وہ آراء جو اس نے پیش کی ہوں، وہ حقیقت میں عملی شکل میں آئیں۔ حزب کا عزم دانستہ شعوری اور ارادی طور پر ایسی عوامی رائے پیدا کرنا ہے جو عمومی شعور سے ابھرتی ہو، اور یہ کہ افراد کو حزب میں شامل کرے، اور بااثر مضبوط شخصیات کو حزب کی حمایت کے لئے حاصل کرے۔ بااثر اور مؤثر شخصیات کی حمایت حاصل کرنا فطری طور پر عوام کی حمایت حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی کچھ مدینہ میں ہوا، جب بیعتِ عقبہ اول کے افراد نے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر دعوت کا بار اٹھایا، جس کا اثر یہ ہوا کہ مدینہ کے سردار دعوت کے لئے حاصل ہو گئے، اور ایسے افراد — جیسے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ — کی شمولیت نے مدینہ کی عوام کو جیتنے میں مدد دی۔
اس طرح سے حزب، درحقیقت ایک طرف عوامی بنیاد کو تعمیر کرتی ہے، اور دوسری طرف جماعت سازی کا عمل بھی جاری رکھتی ہے، جس کا مقصد امت کے افکار، آراء، اور یقین کو، اگر متفقہ طور پر نہیں تو بھی اجتماعی طور پر یکجا کرنا ہے۔
لہٰذا، عوامی بنیاد پیدا کرنے کے لئے ایک زبردست غیر معمولی محنت کا کرنا ضروری تھا۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ امت کی عوام اور عام لوگوں کے اندر وسیع تر عوامی پلیٹ فارم تعمیر کرنے کا مقصد صرف حزب کے افکار کے لئے عوامی رائے پیدا کرنا نہیں ہے، اور نہ ہی حزب اور اس کے پیروکاروں کے لئے جذبات کو ابھار کر محض مطالبات کو آسان دکھا کر وقتی دنیاوی فوائد حاصل کرنا ہے جیسا کہ بعض شباب جذباتی جوش کے ساتھ کرتے ہیں۔ بلکہ اصل مقصد ایک ایسی وسیع تر عوامی بنیاد تیار کرنا ہے جو اپنے کندھوں پر پڑنے والی بھاری ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہو — ایسی ذمہ داری جو خطرات سے ٹکرانے، دشمن قوتوں سے طویل مدتی کشمکش، اور صبر و استقامت کے ساتھ جدوجہد کی متقاضی ہو۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے تاکہ مغرب کو مسلم ممالک میں عراق، شام، افغانستان، سوڈان اور غزہ جیسے سانحات کو پھر کبھی دہرانے کی جرأت تک نہ ہو سکے۔اسی لئے ضروری ہے کہ عوامی رائے پیدا کرنے سے پہلے عمومی شعور پیدا کیا جائے، اور جذبات پر انحصار کرنے سے پہلے فکر پر انحصار کیا جائے، اور خیالی مفروضوں اور تصورات سے بچتے ہوئے ایک حقیقی فہم پیدا کیا جائے۔
اسی بنیاد پر ریاست قائم ہوگی، اور اسلام کے لئے وفاداری حاصل کی جائے گی۔ پھر اسلام کے دشمنوں کا سامنا کیا جائے گا، اور اسلام کا پیغام دنیا بھر میں عالمی سطح پر پہنچایا جائے گا۔ درحقیقت، اسی بنیاد پر امت عالمی منظرنامے میں جدوجہد کرے گی اور موجودہ عالمی نظام کے خلاف کھڑی ہو گی۔ چنانچہ امت پوری کی پوری، یا اس کے بڑے حصہ کو عوامی بنیاد بننا چاہئے، اور اس کے اندر عوامی رائے ایک جامع عمومی شعور سے پیدا ہونی چائیے — ایسا شعور جو مکمل طور پر عقلی عقیدہ اور یقینی ایمان پر مبنی ہو، جو دلیل سے ثابت شدہ ہو۔عوام کی حمایت اس درجے تک پہنچنی چاہیے کہ وہ خوشی، اطمینان، اور جنت کے شوق اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی آرزو کے ساتھ شہادت کے لئے تیار ہوں۔ حزب امت سے یہ نہیں چاہتی کہ وہ اسے انتخابات میں ووٹ دے، بلکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ امت کفار کے خلاف جہاد کرے تاکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کلمہ سب سے بلند ہو جائے۔ ووٹ لے کر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں اور اللہ کے راستے میں جہاد کر کے فیصلہ کن معرکے لڑنے کے ذریعے اسلام کا پرچم بلند کرنے کی کوشش میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
پس، اُمّت کے لئے، حزب کے زیر قیادت اپنی اسلامی ریاست کا قیام کرنے کے لئے تین امور کا ہونا ضروری ہے اور ان امور کو ریاست کے قیام کے لئے اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ یہ دراصل تین ستون ہیں جن پر حزب کا اسٹرٹیجک ویژن مبنی ہے:
· معاشرے میں حزب التحریر کے فروغ کئے گئے اور اپنائے گئے اسلامی نظریے کے لئے رائے عامہ پیدا کرنا۔
· لوگوں کے لئے اور اہل قوت کے لئے، اس اسلامی نظریے اور اس کے حامیوں کو اپنا لینا، انہیں اس نظریے پر مبنی ریاست کے قیام کا اعزاز حاصل کرنے کے قابل بنائے گا، اور اقتدار کو حزب کے حوالے کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔
حزب اور اس کے ارکان کے پاس حکومت کے امور کو بغیر کسی مشکل یا محنت کے سنبھالنے کی صلاحیت ہونی چاہئے، اور یہ امر پہلے ہی موجود ہے، الحمد للہ !
پھر ان شاء اللہ، اقتدار کا حصول فطری طور پر ہوگا، اور خلافت راشدہ کا اعلان کیا جائے گا، کیونکہ ہمارا کام صرف اقتدار حاصل کرنا نہیں بلکہ ایک ریاست بنانا ہے۔
اس بات کی بے شمار مثالیں ہیں، اور اسلام کو کمیونزم سے موازنہ کرنے تک ہی محدود نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک ریاست بنائی اور اقتدار حاصل کیا۔ لینن نے ایک ریاست بنائی اور اقتدار حاصل کیا۔ ماؤ زے تنگ نے ایک ریاست بنائی اور اقتدار حاصل کیا۔ تاہم، اسٹالن نے اقتدار تو حاصل کیا لیکن ریاست نہیں بنائی، کیونکہ ریاست پہلے ہی بن چکی تھی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے اقتدار حاصل کیا لیکن ریاست نہیں بنائی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ریاست بنا لی تھی۔ تاہم، مصطفیٰ کمال نے ایک ریاست کو تباہ کیا اور اقتدار حاصل کیا۔ عبدالناصر نے اقتدار حاصل کیا لیکن ریاست نہیں بنائی۔ بعث پارٹی نے شام میں اقتدار حاصل کیا لیکن ایک ریاست نہیں بنائی۔ انہوں نے عراق میں بھی اقتدار حاصل کیا، لیکن وہ اپنے سر پر ریاست کے نہ ہونے کی وجہ سے زوال کا شکار ہو گئے۔
اگر کوئی بھی حزب ان تین امور کو پیدا کرے، یعنی رائے عامہ، ایک طاقتور گروہ کا اس فکر کو اپنانا، اور حزب کی انتظامی صلاحیت، تو پھر وہ اقتدار حاصل کر سکے گی۔ یہ ریاست سازی کا عمل ہے۔ یہ حزب پھر خلافت راشدہ کا قیام کرے گی، جو پھر ان تمام خیر و برکتوں، حوصلے اور عزم و استقامت کے ساتھ اسلام کی تمام زمینوں تک پھیل سکتی ہے، تاکہ رایۂ عقاب ہر چوٹی پر لہرایا جائے، ہر عمارت پر، اور اسلام کی فوج کے دستوں کے سامنے بلند کیا جا سکے۔ پھر تب ہی یہ کرۂ ارض کے تمام ممالک کو چیلنج کر سکتی ہے، اور ان کی طرف سے متوقع خطرات کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو سکتی ہے، اور جہاد کے رایہ تلے اپنی فوج کے دستوں کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے تاکہ اسلام کے راستے میں حائل تمام مادی رکاوٹوں کو تباہ کر سکے۔ پھر یہ دوسرے لوگوں کو کفر کی گمراہی سے اسلام کی ہدایت کی طرف منتقل کر سکتی ہے، اور دنیا میں دنیا کی صفِ اول کی ریاست کا مقام لینے کے لئے کام کر سکتی ہے۔ اور پھر تب یہ ریاست انسانیت کی کشتی کی قیادت سنبھال کر اسے غرق ہونے سے بچا سکتی ہے، اور اس بیڑے کو حفاظت اور سلامتی کے کنارے کی طرف موڑنے کی رہنمائی کر سکتی ہے، جبکہ اس وقت اس کی قیادت بائیڈن اور ٹرمپ جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ پھر ہی یہ ریاست انسانیت کو ہدایت کی راہ پر لا سکتی ہے اور اس کی رہنمائی کر سکتی ہے تاکہ وہ آخرت میں جنت کے راستے پر اور اس دنیا میں عزت کی طرف چل سکیں، ان شاء اللہ، اور یہ تمام لوگ اسلام کی حکمرانی کے سائے میں امن حاصل کریں گے اور اس کی سلامتی تلے محفوظ ہوں گے۔ اور یہ سب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے چنداں بھی مشکل نہیں ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ * هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾
”یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نور بجھا دیں، حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا، اگرچہ کفار کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (دینِ اسلام )کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کردے“ (التوبہ؛ 9:33)۔
Latest from
- پوری انسانیت کی موت کے اعلان کا وقت آن پہنچا ہے
- ابو بکر صدیقؓ رضی اللہ عنہ کے اپنائے گئے مؤقف، حق پر ثابت قدم رہنے اور حق کو علی الاعلان بیان کرنے والے ہر مسلمان کے لئے مشعلِ راہ رہیں گے
- قرآنِ کریم کے ساتھ اخلاصِ کامل
- خلافت کے انہدام کے 104ویں سالانہ موقع پر حزب التحریر کی عالمی سرگرمیوں پر ایک نظر
- شامی حکومت، سیکولرازم کی شکست، تبدیلی کے عمل کی تکمیل اور خلافت راشدہ کی بحالی