الخميس، 02 ذو الحجة 1446| 2025/05/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

”اسلامیشرعی احکام کا بتدریج نفاذ“

)ترجمہ)

الوعی میگزین: شمارہ نمبر 462، 463، اور 464

 

انتالیسواں سال — رجب، شعبان، رمضان 1446 ہجری

 

بمطابق — جنوری، فروری، مارچ 2025 عیسوی

 

 

فارس منصور – العراق

 

 

اسلام کے نفاذ میں تدریج (تدریجیت) کا تصور ایک خطرناک تصور ہے، جو کہ اسلام کے سراسر خلاف ہے۔ یہ ان لوگوں کے عزم کو کمزور کرتا ہے جو اسلام کے لئے کام کرتے ہیں، اور انہیں اپنے موقف اور عمل میں شریعت کے واضح اصولوں سے دور کر دیتا ہے۔ اسلام کے نفاذ میں تدریج کی دعوت کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ مسلم ممالک کو ”اسلامی“ممالک تصور کر لیا جائے جنہیں صرف اصلاح کی ضرورت ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ ممالک کفریہ نظاموں کو نافذ کئے ہوئے ہیں، جسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ اسلام کے تدریجی نفاذ کی بات کی جائے جو کہ ان کفریہ نظاموں کی عمر کو فقط طول دینا ہے۔ ہمارے لئے یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ تدریجیت کی دعوت اس بات کے ردعمل کے طور پر سامنے آئی، جیسا کہ اس کے حامیوں کا گمان ہے کہ موجودہ حالات میں اسلام کے تمام شرعی احکام کا ایک دم سے نفاذ کرنا مشکل ہے، خاص طور پر اس وقت جبکہ کافر مغرب اپنا تسلط جمائے ہوئے ہے اور اس کے ایجنٹ حکمران مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط ہیں۔

 

اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر، بہت سے لوگوں نے اس پر مباحثے بھی کئے ہیں اور تحریریں بھی لکھی ہیں۔ تاہم میں یہاں چند ایسے نکات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جنہیں میں نہایت اہم سمجھتا ہوں:

 

اوّل : تدرج (Gradualism) کی اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ کسی مطلوبہ شرعی حکم کا مرحلہ وار انداز میں نفاذ کیا جائے نہ کہ فوری طور پر۔ اسی لئے اسے ”تدریجیت“بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان ابتدا میں ایسا غیر شرعی حکم یا عمل اپنا لے جو اس کے نزدیک شرعی حکم سے قریب تر ہو۔ پھر وہ بتدریج ایسے اعمال اپنائے جو شریعت کے مزید قریب ہوتے ہیں، یہاں تک کہ آخرکار وہ مطلوبہ شرعی حکم پر عمل پیرا ہو جائے۔ مثال کے طور پر: ایک مسلمان عورت ابتدا میں ایسا لباس پہنتی ہو جو بمشکل گھٹنوں سے نیچے تک پہنچتا ہو، اور بعد کے مراحل میں وہ عورت مکمل شرعی لباس کو اپنا لے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس تدریج میں مراحل کی تعداد کسی مقرر کردہ حد تک محدود نہیں ہوتی۔ کسی ایک شرعی حکم کے نفاذ تک پہنچنے کے لئے ایک، دو یا حتیٰ کہ اس سے زیادہ مراحل بھی ہو سکتے ہیں۔ تدریج کا انحصار حالات اور اسباب کی مناسبت سے ہوتا ہے جو ان مراحل کی تعداد کو طے کرتے ہیں۔

 

دوئم: تدریج کے حامی جو دلائل پیش کرتے ہیں، وہ استنباط (شرعی فقہی استدلال) کے درست اصولوں پر مبنی نہیں ہوتے۔ وہ لوگ شریعت کے دلائل سے یہ ثابت نہیں کر پاتے کہ شریعت میں تدرج جائز ہے۔ بلکہ وہ پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ تدریج ضروری ہے، اور اس کے بعد اسے جائز بنانے کے جواز کے لئے شریعت سے دلائل تلاش کرنے لگتے ہیں۔ یہ بات ان لوگوں کی طرف سے قرآنِ کریم کی بعض آیات کے غلط استدلال سے واضح ہو جاتی ہے۔

 

الف: ربا (سُود) سے متعلق قرآنی آیات:

 

رِبا سے متعلق قرآنی آیات سے ان لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ربا کو یکسر حرام نہیں کیا، بلکہ اس کی حرمت کو مرحلہ وار نازل فرمایا، کیونکہ ان کے مطابق ابتدا میں ربا جائز تھا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللهِ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْمُضْعِفُونَ

”اور جو کچھ تم سُود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں وہ بڑھے، تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو، اللہ کی رضا طلب کرتے ہوئے، تو یہی لوگ اپنے مال کو کئی گنا بڑھانے والے ہیں“۔ (سورۃ الروم؛ 30:39)

 

پھر وہ سودِ مرکب کی حرمت کی بات کرتے ہیں، لیکن سودِ مفرد کو نہیں چھیڑتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافاً مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

”اے ایمان والو! رِبا کو دوگنا، چوگنا کر کے مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ“۔(سورۃ آلِ عمران؛ 3:130)

 

اور آخر میں، وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ربا کو اس فرمان کے ذریعے حرام قرار دیا:

﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا

”اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا“۔ (سورۃ البقرۃ؛ 2:275)

 

رِبا کے بارے میں اس دعوے کے جواب میں ہم کہتے ہیں: سود اپنی اصل سے ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے حرام ہے:

﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا

”اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا“۔ (سورۃ البقرۃ؛ 2:275)

چونکہ سورۃ البقرۃ وہ سورۃ ہے جس میں ربا کی حرمت نازل ہوئی، اور یہ مدینہ میں نازل ہونے والی پہلی سورۃ ہے، جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے، تو اس میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں کہ سود کو بتدریج حرام کیا گیا ہو۔

 

جہاں تک اس موضوع پر دیگر متعدد شرعی نصوص کا تعلق ہے، وہ مخصوص واقعات کے بارے میں نازل ہوئیں۔ ان میں تدریجی مراحل کی کوئی نشاندہی نہیں پائی جاتی۔

 

چنانچہ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا :

﴿وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللهِ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْمُضْعِفُونَ

”اور جو کچھ تم سُود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں وہ بڑھے، تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو، اللہ کی رضا طلب کرتے ہوئے، تو یہی لوگ اپنے مال کو کئی گنا بڑھانے والے ہیں“ (سورۃ الروم؛ 30:39)۔

اس آیت کا ربا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تحفہ یا ہدیہ اس نیت سے دیتا ہے کہ اسے بدلے میں کچھ حاصل ہو یا بعد میں اسے واپس لے، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اس پر کوئی اجر نہیں ملے گا۔ یہ تفسیر امام قرطبی اور ابن کثیر نے ابن عباس، مجاہد، ضحاک، قتادہ، عکرمہ، محمد بن کعب، اور الشعبی کے حوالہ سے ذکر کی ہے۔

 

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافاً مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

”اے ایمان والو! رِبا کو دوگنا، چوگنا کر کے مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ“ (سورۃ آلِ عمران؛ 3:130)۔

اس آیت سے بھی ان کے نکتہ نظر کے لئے کوئی دلیل نہیں ملتی۔ قرآن کی یہ آیت سودِ مرکب لینے کی ممانعت کے طور پر نازل ہوئی، جو کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ اسی طرح کے سودی معاملات کرتے تھے۔ آیت میں کہیں بھی یہ اشارہ نہیں کہ سود کی حرمت صرف مرکب سود تک محدود ہے، اور سودِ مفرد اس سے خارج ہے۔

 

ب: شراب سے متعلق قرآنی آیات: وہ لوگ جو تدریج کے قائل ہیں، وہ ان تمام قرآنی آیات سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ شراب ابتدا میں جائز ہوا کرتی تھی، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے :

﴿يَسْأَلونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا

”وہ آپ سے شراب اور جوا کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں، لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے“ (سورۃ البقرۃ؛ 2:219)۔

پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اس کے جائز ہونے پر پابندی نازل ہوئی :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ

”اے ایمان والو! نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم نشے کی حالت میں ہو، یہاں تک کہ تم جاننے لگو کہ کیا کہہ رہے ہو“ (سورۃ النساء؛ 4:43)۔

 

پھر اس پابندی کے بعد، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے شراب کو مکمل طور پر حرام قرار دے دیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ * إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَعَنِ الصَّلاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ

”اے ایمان والو! شراب، جوا، بت، اور فال نکالنے کے تیر ناپاک ہیں، شیطانی کام ہیں، سو ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ * شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کرے، اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے، تو کیا تم باز آؤ گے؟ “ (سورۃ المائدۃ؛ 5: 90-91)۔

 

اس مؤقف کے جواب میں : ہم کہتے ہیں کہ یہ قرآنی آیات شراب کی تدریجی حرمت کی کوئی دلیل فراہم نہیں کرتیں۔ شراب کو تدریجاً حرام نہیں کیا گیا۔ شراب کو اس کی اصل حالت میں ہی متروک چھوڑا گیا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ * إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَعَنِ الصَّلاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ﴾

”اے ایمان والو! شراب، جوا، بت، اور فال نکالنے کے تیر ناپاک ہیں، شیطانی کام ہیں، سو ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ * شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کرے، اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے، تو کیا تم باز آؤ گے؟ “ (سورۃ المائدۃ؛ 5: 90-91)۔

 

اور جو شخص اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان کا بغور جائزہ لے :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ

”اے ایمان والو! نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم نشے کی حالت میں ہو، یہاں تک کہ تم جاننے لگو کہ کیا کہہ رہے ہو“ (سورۃ النساء؛ 4:43)۔

تو یہ واضح ہوتا ہے کہ آیت میں مسلمانوں کو اس وقت نماز کے قریب جانے سے نہیں روکا گیا جب وہ شراب پی رہے ہوں۔ بلکہ آیت میں یہ کہا گیا کہ نشے کی حالت میں نماز ادا کرنا حرام ہے تاکہ مسلمان جان سکیں کہ وہ کیا تلاوت کر رہے ہیں۔ اگر اس آیت کے نازل ہونے کے بعد، مسلمان پر شراب کا اثر ہو لیکن وہ اس حد تک ہو کہ اس کی عقل متاثر نہ ہو، تو اس پر کوئی الزام نہیں ہوگا۔

 

تاہم، جب شراب کو حرام قرار دے دیا گیا تو کسی نے بھی کسی بھی صورت میں شراب پینے کی اجازت نہیں دی نہ تو رسول اللہ ﷺ کے دور میں، نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں، اور نہ ہی تابعین اور تبع تابعین کے دور میں۔ شراب کے حرام ہونے کا شرعی حکم روزِ قیامت تک اسی طرح رہے گا۔

 

سوئم : جیسے ہی کوئی نئے شرعی احکام نازل ہوتے تھے تو رسول اللہ ﷺ ان نئے شرعی احکام کو فوراً پہنچا دیتے اور ان کی پابندی کرنے کا حکم دیتے۔ جو کچھ بھی آپ ﷺ پر نازل ہوتا تھا تو آپ ﷺ اس حکم کا نفاذ کرنے میں مرحلہ وار اقدام نہیں اٹھاتے تھے، نہ ہی آپ ﷺ نے کسی بھی حرام کی اس کے حرام مقرر ہو جانے کے بعد کسی قسم کی کوئی اجازت دی، اور نہ ہی آپ ﷺ نے کسی منسوخ حکم کو اس کے منسوخ ہو جانے کے بعد جاری رکھا۔ اس بات کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے بعض احکام کے نفاذ میں کسی قسم کی کوئی تاخیر کی ہو، یا یہ کہ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کہا ہو کہ کچھ شرعی احکام کو تو فوراً نافذ کر دیں، جبکہ انہیں دیگر احکام کو مؤخر کرنے کی اجازت دی ہو، کہ اس سے یہ اخذ کیا جا سکے کہ آپ ﷺ شرعی احکام کو بتدریج نافذ کر رہے تھے۔ اس کے برعکس، ہم آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ میں یہ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے قریش کے سرداروں کی اس درخواست کو رد کر دیا کہ آپ ﷺ شرعی احکام میں سے کچھ کو چھوڑ دیں۔ جب قریش نے رسول اللہ ﷺ کو حکمرانی میں شرکت کی پیش کش کی تو آپ ﷺ نے کفریہ حکمرانی میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ ہم آپ ﷺ کا وہ مؤقف بھی دیکھتے ہیں جب بنو عامر بن صعصعہ نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ﷺ کے بعد اقتدار ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے، حالانکہ اس وقت آپ ﷺ کو دعوت کے لئے نصرۃ کی شدید ضرورت تھی۔ لیکن آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : «الْأَمْرُ إِلَى اللهِ يَضَعُهُ حَيْثُ يَشَاءُ» ”(یہ معاملہ) حکم تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہ اسے جہاں چاہے رکھ دے“۔ہم آپ ﷺ کا موقف بنو شیبان کے بارے میں بھی دیکھتے ہیں جب وہ آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہا، (يا محمد إن عندنا رجالاً كالذرِّ ومالاً كالتراب وعزيمة وبأساً كالجبال، ننصرك على العرب ولا ننصرك على الفرس والروم) اے  محمد، ہمارے پاس مردوں کی بہتات ہے، مال کی فراوانی ہے، اور عزم و حوصلہ پہاڑوں کی مانند ہے۔ ہم عربوں کے خلاف تو آپ کی مدد کریں گے، لیکن فارسیوں اور رومیوں کے خلاف ہم آپ کی مدد نہیں کریں گے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:

(وَإِنَّ دِينَ اللهِ تَعَالَى لَنْ يَنْصُرَهُ إِلا مَنْ أَحَاطَهُ مِنْ جَمِيعِ جَوَانِبِهِ)

”اللہ کے دین کی مدد صرف وہی لوگ کریں گے جو اسے ہر طرف سے تحفظ دیں گے“۔

 

جیسے کہ ابن ہشام نے اپنی سیرت میں بیان کیا ہے، رسول اللہ ﷺ کا بنو ثقیف کے بارے میں موقف یہ تھا کہ جب بنو ثقیف کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ سے بات چیت کرنے آیا، تو انہوں نے ان سے درخواست کی کہ ان کے بت ”اللات“ کو تین سال تک کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے درخواست کی کہ چلیں ایک سال کے لئے چھوڑ دیں، تو رسول اللہ ﷺ نے پھر انکار کیا۔ وہ مسلسل درخواست کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے ایک مہینے تک کے لئے بت کو چھوڑ دینے کی درخواست کی، جب کہ وہ اسلام قبول کر چکے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے کسی بھی مخصوص مدت کے لئے بت کو مہلت دینے کے لئے انکار کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد آنے والے خلفائے راشدین رضی الله عنهم کا بھی یہی طرزِ عمل رہا تھا، جب انہوں نے نئے فتح شدہ علاقوں میں کسی تاخیر، ٹال مٹول یا تدریجی عمل کے بغیر اسلام کے شرعی احکام کو فوری اور ایک ساتھ نافذ کیا۔

 

چہارم : جب ہم روئے زمین پر موجود حقائق کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے تدریجی نفاذ کا تصور ہمارے لئے شر کے سوا کچھ نہیں لایا ہے۔ اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔ مثلاً، مصر میں، اخوان المسلمون اقتدار میں آئے۔ نتیجہ کیا نکلا؟! وہ دین کو قائم کرنے میں ناکام رہے۔ سوڈان کی حالت یہ ہے کہ ملک تقسیم ہو چکا ہے اور اس کے لوگ غربت اور بدحالی کا شکار ہیں۔ ترکی، جسے بہت سے لوگ حکمرانی کے ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں، وہ حقیقت میں سیکولرازم کا گڑھ بن چکا ہے اور مغرب کے تابع ہے۔ جہاں تک اردن کا تعلق ہے تو اس کی سب سے بڑی تشویش انتخابی قانون میں تبدیلی لانا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد پارلیمنٹ میں داخل ہو سکیں۔ تیونس میں صورت حال اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ قرآن مجید کے واضح (قطعی) اسلامی شرعی احکام کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، جیسے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوی وراثت کے قوانین اور تعدد ازدواج کو جرم قرار دینا۔ اور اب، شام میں ہم دیکھتے ہیں کہ هيئة تحرير الشام  اپنی راہ کے اختتام تک پہنچ چکی ہے، جس کا مقصد صرف حکومت کا خاتمہ تھا۔ آج وہ اقتدار میں ہیں، مگر انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شرعی حکمرانی کے قیام کو نظرانداز کر دیا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو دیگر طاقتوں کی جھولی میں پھینک کر خود کو ان کے حوالے کر دیا ہے۔ تمام مسلم ممالک نے غزہ میں مجاہدین کو نظرانداز کیا اور حتیٰ کہ ان کے خلاف سازشیں کیں، حالانکہ وہ ممالک اپنے آپ کو مسلمان یا ”اسلامی“ ممالک کہتے ہیں۔

 

آخر میں: ہم ہمیشہ کہتے آئے ہیں اور آج بھی کہتے ہیں کہ اسلامی امت ایک معزز امت ہے جو خیر سے لبریز ہے۔ یہ ایک ایسی امت ہے جو اسلام کو نافذ کرنے کی تڑپ رکھتی ہے۔ ہم ہمیشہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حقیقی تبدیلی صرف ایک بنیادی، جامع اور مکمل تبدیلی کے ذریعے ہی آئے گی۔ اور یہ تبدیلی صرف خلافت راشدہ کے تحت ہی ممکن ہو گی جو اسلام کو ایک نظام اور آئین کے طور پر لوگوں کی زندگیوں میں نافذ کرے گی۔

 

 

حزب التحریر دن رات امت کے درمیان اور اس کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ حزب نے خلافت کے لئے مکمل تیاری کر رکھی ہے، جس میں ریاستِ خلافت کے آئین کے مسودے کی شکل میں ریاست کے لئے شرعی احکام شامل ہیں، جو اللہٰ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت سے استنباط شدہ ہیں، اور مضبوط دلائل کے ساتھ ہیں۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ ہم خلافت کے احیاء ہونے کے گواہ بنیں اور اس خلافت کے سپاہیوں میں شامل ہوں۔

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

 

﴿وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

 

”اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اللہ انہیں زمین پر ان حکمرانوں کی بجائے حکمرانی عطا فرمائیگا، جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے، اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا جسے ان کے لئے وہ پسند فرما چکا ہے  اور ان کے اس خوف و خطر کو امن و امان سے بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گےاور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ کفر  کریں وہ یقیناً   فاسق ہیں“ (النور؛ 24:55)۔

 

Last modified onمنگل, 27 مئی 2025 23:00

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک