بسم الله الرحمن الرحيم
امت کے لئے واحد انتخاب صرف اسلام کے ذریعے سے حکمرانی ہی ہے۔
)ترجمہ)
الوعی میگزین: شمارہ نمبر 462، 463، اور 464
انتالیسواں سال — رجب، شعبان، رمضان 1446 ہجری
بمطابق — جنوری، فروری، مارچ 2025 عیسوی
انجنئیر باهر صالح – فلسطين
اسلامی خلافت کے انہدام کی یاد کے سالانہ موقع کے حوالے سے، ہم اس اہم اور مرکزی موقع کے ایک مسئلے پر بات کرتے ہیں: شرعی ذمہ داریوں کے حوالے سے اسلامی حکمرانی کا مسئلہ، اور اس میں حائل رکاوٹیں، چیلنج اور مشکلات۔ یہ بات خاص طور پر اس لحاظ سے درست ہے کہ امت اس وقت اسی مسئلے سے متعلق شام میں ایک سیاسی، فکری اور انقلابی تحریک میں الجھی ہوئی ہے۔
جیسا کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ شام کے انقلابیوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کرم سے ظالم حکمران بشار الاسد کو شکست دی اور وہ بے عزت ہو کر بھاگ نکلا، اور پوری امتِ مسلمہ کے ساتھ ساتھ شام میں ہمارے لوگ متبادل نظام کی مطلوبہ شکل کے بارے میں ایک جاری تحریک اور بحث میں مصروف ہیں۔
اس صورتحال سے جو کچھ ظاہر ہو رہا تھا اور متوقع بھی تھا، حتیٰ کہ بشار اور اس کے نظام کے زوال سے پہلے ہی، وہ یہ تھا کہ حاملینِ انقلاب اور شام کے عوام کی بڑی اکثریت ، صرف اسلام کی طرف رجوع کریں گے۔ کیونکہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے انقلاب کے آغاز سے ہی رایۂ اسلام (جھنڈا) بلند کیا تھا، اور ایسے نعرے اور کلمات لکھے جو پوری مسلم دنیا میں مشہور ہوگئے، جیسے کہ یہ جملہ : هي لله هي لله لا للسلطة لا للجاه ”یہ اللہ ہی کے لئے ہے! یہ اللہ ہی کے لئے ہے! طاقت کے کھیل سے انکار، دنیاوی مقام و مرتبہ سے انکار“ اور قائدنا للأبد سيدنا محمد ”ہمیشہ کے لئے ہمارے قائد ہمارے آقا محمدﷺ ہیں“ اور إسلامية إسلامية غصب عنك أوباما ”اسلام، اسلام، اوباما چاہے تمہیں پسند ہو یا نہ ہو“ اور لن نركع إلا لله ”ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا کسی اور کے آگے ہرگز نہ جھکیں گے“ اور اس کے علاوہ بھی بہت سے اور نعرے تھے۔
یہ حقیقی معنوں میں مسلم دنیا کے لئے ایک خالص ترین انقلاب کے طور پر جانا گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ مغرب اور استعمار کی تمام طاقتیں اپنی سازشوں کے ساتھ اس انقلاب کے خلاف ہو گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کو دبانے اور بشار کو دوام دینے کے لئے امریکہ اپنے اتحادیوں اور دشمنوں کو اکٹھے ساتھ لے آیا تا کہ بشار کو ہر ممکن ذرائع مہیا کئے جائیں جن سے وہ جرائم کا ارتکاب کرے اور سفاک ہو جائے، تاکہ وہ انقلاب کو دبانے اور اسے مکمل ختم کر دینے کے قابل ہو سکے۔ اور صرف یہی وہ واحد وجہ ہے جس نے بشار کو تیرہ سال تک اقتدار سے چمٹے رہنے کے قابل بنایا۔
شام کے انقلاب کی اسلامی نوعیت شروع دن سے ہی صاف واضح تھی۔ لہٰذا جیسے ہی اسد حکومت کا خاتمہ ہوا، سب کو، چاہے وہ دوست ہو یا دشمن، قریب ہو یا دور، سب کو ان انقلابیوں سے امید تھی کہ وہ اسلام کو نافذ کریں گے اور ایک اسلامی ریاست قائم کریں گے۔
لہٰذا مغرب اپنے وزراء، سفیروں اور ایجنٹوں کے ساتھ شامی انتظامیہ کے سربراہ سے ملاقاتوں کے لئے شام پہنچ گیا۔ وہ سبھی یا تو ریاست کو سیکولرائز کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے آئے تھے، یا اقلیتوں کے حقوق، خواتین کے حقوق، انسانی حقوق اور انصاف کے حصول کے بہانے ریاست کو اسلام کی طرف ڈھالنے کے خلاف خبردار کرنے اور دھمکیاں دینے آئے تھے۔ انہوں نے شامی عوام، شامی خواتین، شامی بچوں اور شامی اقلیتوں کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہانا شروع کر دئیے۔ جبکہ یہ وہی لوگ ہی تھے جو پہلے بشار کے سرپرست رہ چکے تھے اور تیرہ سال تک کیمیائی ہتھیاروں اور دھماکہ خیز بیرلوں کے ساتھ قتلِ عام کرنے اور سفاک ترین مظالم برپا کرنے کے لئے بشار کی پشت پناہی کرتے رہے تھے، یہاں تک کہ شام کی نصف عوام ملک چھوڑ کر چلے گئے، داخلی اور خارجی طور پر بے گھر ہو گئے، اور تقریباً 20 لاکھ افراد خونریزی، قتل و غارت گری، اور بمباری سے مارے گئے۔
اس مسئلے کے بارے میں خاص بات، اسلامی شریعت کے مطابق حکومت کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ یہ ہے کہ مغرب محض نعروں اور ناانصافیوں کو جواز کے طور پر استعمال کر رہا ہے تا کہ اپنے زہر اور شرائط کو متعارف کرایا جائے اور اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ مغرب ان انقلابیوں اور اہل شام سے ہرگز اس سے کم کچھ قبول نہ کرے گا سوائے اس کے کہ وہ سیکولرازم کو اپنا لیں اور اسلام کو ترک کر دیں۔
یہ ایک حقیقت ہے جس کی تصدیق قرآن کریم نے کر دی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا,
﴿وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ﴾
”اور یہود و نصارٰی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی اختیار کرلو۔ (ان سے) کہہ دو کہ بے شک اللہ کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے۔ اور اگر تم اپنے پاس علم آ جانے کے بعد بھی ان کی خواہشوں کی پیروی کرو گے تو تمہارے لئے اللہ سے نہ کوئی حمایت کرنے والا ہو گا اور نہ کوئی مددگار“ (سورۃ البقرة؛ 2:120)۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں حتمی طور پر یہ بتلا دیا ہے کہ یہ لوگ اس وقت تک ہرگز مطمئن نہیں ہوں گے جب تک کہ ہم اپنے دین کو ترک نہ کر دیں اور ان کی پیروی نہ کر لیں، چاہے ہم ان کے ساتھ کتنی ہی رعایتیں یا سمجھوتہ کر لیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ قدیم اور جدید تاریخ اس حقیقت کی تصدیق اور توثیق کرتی ہے۔ موضوع سے ہٹنے سے بچنے کے لئے آئیے حالیہ تازہ ترین دو مثالوں پر نظر ڈالتے ہیں جن میں لچک دار انداز میں اسلامائزیشن کی کوشش کی گئی، تا کہ مغرب کے ساتھ ٹکر لینے سے بچا جائے؛ تیونس اور مصر کی مثالیں۔
تیونس میں النهضة تحریک، وہ اسلامی تحریک، جس نے انتہائی حد تک لچک کا مظاہرہ کیا اور سیکولرازم اور مغرب کے مطالبات کو قبول کیا۔ یہاں تک کہ اس کے لوگ پارلیمنٹ میں ان معاملات پر بحث کریں گے کہ آیا شراب پر ٹیکس لگایا جائے، ظہر کی نماز کے لئے اجلاس ملتوی کیا جائے، اور پھر شرعی ادائیگی کے بعد بحث کو جاری رکھا جائے۔ یہ محض ایک مثال اور نمونہ ہے کیونکہ اسلام اور سیکولرازم کا مسئلہ اس مسئلے سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔ تاہم یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ انہوں نے کفر، سیکولرازم اور استعمار کے تقاضوں کے حوالے سے کس حد تک لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ تو اس کے بعد کیا ہو سکتا ہے؟!
مغرب نے چند سال تو ان کے ساتھ تحمل کا مظاہرہ کیا، یہاں تک کہ سڑکوں پر جلسے جلوس پرسکون ہو گئے، اور وہ عوام اور ان کے شدید غصے پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر انہوں نے انہیں منظرِ عام سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا، اور یہاں تک کہ قید وبند اور ظلم و جبر کے ساتھ ان کے تعاقب بھی کئے گئے۔ پھر بھی، انہیں اپنے اس خسارہ پر ماتم کرنے والا کوئی نہیں ملا۔
مصر میں بھی ایسا ہی ہوا، جب مغرب نے اسلام پسندوں کا اقتدار میں آنا قبول کیا تو پھر انہوں نے محکومیت، تسلط اور تعمیل کرانے کا عمل شروع کیا۔ محمد مرسی کی قیادت میں اخوان المسلمون نے کوشش کی کہ کسی کو ناراض نہ کیا جائے، یہاں تک کہ سابقہ حکومت کی باقیات کو بھی۔ انہوں نے ملک میں سیکولر نظام حکومت، سرمایہ دارانہ ریاست کے ڈھانچے اور استعماری مغرب کے ساتھ تعلقات کو بھی برقرار رکھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے پاس درمیانی راستہ ہے، لیکن استعمار اور سابقہ حکومت کے باقی ماندہ لوگ جلد ہی ان کے خلاف ہو گئے، اخوان کو چوراہوں میں قتل کیا گیا، انہیں جیلوں میں ڈالا گیا، اور گلیوں، گھروں اور یہاں تک کہ دیگر ممالک میں بھی ان کے ارکان اور قیادت کا تعاقب کیا گیا۔ لہٰذا وہ بھی ایسے چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے کہ ان پر ماتم کرنے والا ہی کوئی نہ رہا۔
لہٰذا مغرب اسلام کے ارتداد اور انکار سے کم کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا اور نہ ہی وہ کسی طور بھی اس سے کم پر مطمئن ہوگا۔ مغرب صرف تب تھوڑا ٹھنڈا پڑ سکتا ہے، جب اسے رعایتیں اور گنجائش نظر آتی ہے۔ تاہم، یہ مکروفریب کا سکون ہوگا۔ اور مغرب اپنے مقصد کے حصول کے لئے خفیہ اور کھلے عام اپنا کام جاری رکھے گا۔
مسلم ممالک میں مغرب کے ہدف کو دو امور میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے: پہلا اس بات کو یقینی بنانا کہ اسلام واپس نہ آئے، اور دوسرا اس بات کو یقینی بنانا کہ مغرب ہمارے ممالک میں استعماریت کو محفوظ رکھے اور ہمارے وسائل کو لوٹتا رہے۔
مغربی ذہنیت ایک استعماری ذہنیت ہے، اور جب وہ ہمارے ممالک میں اپنے فرسودہ، گھٹیا نظریے اور تہذیب کو فروغ دیتا ہے، تو وہ ایسا اس لئے کرتا ہے کیونکہ یہ ہم پر اور ہمارے ممالک پر استعمار کا اور ایک نگران کے طور پر قبولیت کا راستہ ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہم یہ تصور کر لیں کہ مسلمانوں کے باقی حکمرانوں کی طرح انقلابی بھی ریاست کے لئے سیکولرزم کو قبول کر لیں اور جمہوریت اور سرمایہ داریت کو اپنالیں تو مغرب صرف اسی سے ہی مطمئن نہ ہو جائے گا۔ بلکہ اس کے بجائے مغرب یہ بھی چاہے گا کہ ریاست کو اس طرح سے تشکیل کیا جائے کہ جو مغرب کو ہمارے ملک میں استعمار کے طور پر برقرار رکھے، یعنی ہمارا ملک استعمار کے ماتحت ہی رہے گا، وہ اس کی دولت لوٹیں گے، اور وہی اس کے فیصلوں کو کنٹرول کریں گے۔ اس کے بعد ہم ان کے نوکر کی حیثیت سے ہوں گے اور ان کے منصوبوں کے ایجنٹ ہوں گے۔
اور یہ ہے ترکی کا اردگان ماڈل۔ اگرچہ اردگان ایک سخت گیر سیکولر پسند ہے جو سیکولرزم پر یقین رکھتا ہے اور اس کا دفاع کرتا ہے ، اور اس نے ترکی کو ایک سیکولر جمہوریہ کے طور پر برقرار رکھا ہوا ہے ، اور اسی بنیاد پر ریاستی ادارے بھی بنائے ہیں، لیکن امریکہ صرف اسی سے ہی مطمئن نہیں ہوا تھا۔ اس کے بجائے اس نے اردگان کو خطے میں اپنا سرکردہ سرغنہ بنا لیا، جو امریکہ کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے اور امریکی منصوبوں کو ہی فروغ دیتا ہے۔ اردگان مسلمان فوجیوں کو ہر اس جگہ پر لڑنے کے لئے بھیجتا ہے جہاں امریکہ انہیں نیٹو میں اپنے کنٹرول تلے چاہتا ہے، اور اس کے علاوہ اردگان خلافت عثمانیہ کے سابق دارالحکومت میں امریکی انجرلک بیس کی میزبانی کئے ہوئے ہے۔ اردگان اسلامی کارکنوں، تحریکوں اور جماعتوں پر ظلم و ستم کرنے میں شامل ہے اور انہیں ان اعمال کے تابع کرنے پر مجبور کرتا ہے جو امریکہ کو قبول و منظور ہوں۔ اردگان نے ترکی میں ہمارے لوگوں کو جینے کے لئے شدید مشقت کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں استعمار، سرمایہ داریت اور سیکولرزم کی آگ میں جلتے ہوئے، غربت اور جبر کا شکار ہونے کے لئے چھوڑ دیا ہے ۔ معاشی صورت حال اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ ایک ہی خاندان کے باپ، ماں، بیٹا اور بیٹی کو کئی کئی گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ روزمرہ زندگی کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہو سکیں ۔
باقی مسلم ممالک مصر، اردن، عراق، الجزائر، تیونس، مراکش، لیبیا، پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، وسطی ایشیا اور دیگر ممالک میں بھی کم و بیش یہی حالات ہیں۔ مغربی استعمار اور ان کے ایجنٹوں نے ان سب کو سیکولر نظام حکومت میں تبدیل کر دیا، ان کے لوگوں کو غربت میں دکھیل دیا اور انہیں استعمار اور اس کے مفادات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ مغرب اپنی استعماریت اور ہمیں ایسے سیکولر ممالک میں تبدیل کرنے کے علاوہ کسی اور اقدام سے مطمئن نہیں ہوگا جو اسلام سے لڑتے ہیں اور امت مسلمہ کی تہذیب و شناخت کا انکار کئے ہوئے ہیں۔
ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ امت سو سال سے زائد عرصے سے ایجنٹ حکمرانوں کی آگ میں جھلس رہی ہے۔ امت دراصل خود استعماری مغرب کی آگ میں جل رہی ہے۔ یہ حکمران تو محض مغرب کے کارندے، آلۂ کار اور ایجنٹ ہیں، جو ہمیں کنٹرول کرنے کے لئے بااختیار بنے بیٹھے ہیں۔ مجرم حکمران، خواہ وہ آمرانہ ہوں یا جمہوری، دونوں ہی قسم کے یہ حکمران، مغربی استعمار کی تخلیق ہیں اور مغرب کے وفادار خادم ہیں۔
جو متبادل مسلمانوں اور امت مسلمہ کو بچائے گا وہ خالص اور کسی ملاوٹ سے پاک اسلام ہے اور اسلام کے سوا کچھ نہیں۔
اسلام ہی وہ ہے جو مسلمانوں کو عزت دے سکتا ہے اور ان کی عزت، ان کے ملک اور ان کی آزادی کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو مقدسات کی حفاظت کرتا ہے اور اقلیتوں کا نگہبان ہے اور یہی معاشرے میں انصاف اور سکون کو ممکن بنا سکتا ہے۔
یہ وہی اسلام ہے جس نے زمانہ جاہلیت میں ان عربوں کو، جو باہمی تقسیم اور جنگوں کا شکار تھے اور رومیوں، فارسیوں اور دیگر اقوام کے تابع ہوا کرتے تھے، انہیں دنیا کے سردار اور حکمرانوں میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے فارسیوں اور رومیوں کو زیر کر دیا اور ان کے خلیفہ نے رومی حکمران نقفور اول (Nicephorus I ) کو (كلب الروم) ”روم کا کتا“ کہہ کر مخاطب کیا اور مسلمانوں کے خلیفہ نے بادلوں کو مخاطب کر کے کہا کہ (أمطري حيث شئت فإن خراجك عائد لبيت مال المسلمين) ”جہاں چاہو بارش برساؤ لیکن تمہارا خراج (زرعی ٹیکس) مسلمانوں کے بیت المال (سرکاری خزانے) کے لئے ہو گا“۔
وہ اسلام کہ جس نے زمانہ جاہلیت کے اور صحرا کے لوگوں کو عزت بخشی تھی، وہ آج ہمیں بھی عزت دلانے اور قیادت، عظمت اور وقار کے مرتبہ پر واپس لانے کے پوری طرح سے قابل ہے۔
اسلام ہی اپنے شہریوں، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان انصاف کے حصول کا واحد ضامن ہے۔ اسلام کے شرعی احکام عرب اور عجم، طاقتور اور کمزور، سیاہ و سفید کی تفریق کے بغیر لوگوں کے عزت، مال، حرمت اور حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔
اسلام نے اپنی غیر مسلم رعایا کو بھی وہ حقوق دیئے ہیں جو مسلمانوں کے حقوق سے کم نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے کسی ذمی کو نقصان پہنچانے والے کے ساتھ ایسا سلوک کیا جیسے اس نے کسی مسلمان کو نقصان پہنچایا ہو۔ آپ ﷺنے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ان کی عبادات اور ایمان میں آزادی دی۔ دین میں کوئی جبر نہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں ریاست اور قانون کے سامنے قانونی چارہ جوئی اور ثالثی میں برابر قرار دیا۔ ان کے پاس بھی وہی حقوق ہیں جو مسلمانوں کے پاس ہیں، اور وہ بھی عدل و انصاف کے لحاظ سے اسی حکم کے تابع ہیں جس کے تابع مسلمان ہیں۔
اور یہ امر فقط ایک نظریہ ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ ذمی (غیر مسلم شہری) اسلامی ریاست کی پوری تاریخ میں اس حد تک خوش حال زندگی بسر کرتے رہے کہ انہوں نے خود یہ محسوس کیا کہ انہیں اپنے ہی ہم مذہبوں کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ مل کر کھڑا ہونا ہوگا۔ چنانچہ ریاست کے عیسائیوں نے مسلمانوں کے شانہ بشانہ عیسائی صلیبیوں کے خلاف اس وقت جنگ لڑی جب انہوں نے اسلامی سرزمینوں پر حملہ کر دیا۔ ان میں سے منصفانہ سوچ رکھنے والے آج بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ موجودہ کفر سیکولر حکومتوں کے دور میں گزاری جانے والی زندگیوں کے برعکس اسلامی ریاست کے تحت باوقار زندگی بسر کر رہے تھے۔
یہ اسلام اور اس کے نظام کی حقیقت ہے، جو انصاف، رحمت اور نور کا نظام ہے۔ اسلام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بندوں اور تمام لوگوں کو مصائب، آلام اور عذاب سے نکال کر وسعتوں، سکون اور انصاف کی طرف لے جانے کے لئے آیا ہے۔
صرف اسلام ہی استعمار سے آزادی (تحریر) اور ہماری سرزمینوں سے استعمار کے اثر و رسوخ کو اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صرف اسلام ہی امت کو ایک ریاست یعنی دو ارب کی امت کو متحد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ امت اسلام کے سوا کسی اور چیز کے تابع نہیں ہوگی اور اسلام کے سوا کوئی چیز امت کو متحد نہیں کر سکتی۔ اگر امت متحد ہو جائے تو یہ دو ارب کی امت بن جائے گی، جس کے پاس دنیا کے تمام ممالک کو فتح کرنے کے لیے کافی افواج ہوں گی، اپنی تمام رعایا کو مالا مال کرنے کے لئے وافر مال و اسباب ہو گا اور دنیا بھر پر حکومت کرنے کے لئے کافی افراد ہوں گے۔ مغرب کو اسی بات کا ڈر ہے اور وہ اس کی روک تھام کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے۔
جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو ہم اس کی تشکیل، تنظیم اور احکام کے حوالے سے ایک منفرد نظام حکومت کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
یہ موضوع حکومت یا ریاست کے اسلامائز پہلو کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بجائے، اسلام ایک عقیدہ اور ایک نظام ہے، ایک ایسا جامع نظریہ جو انسانی طرز حیات کو عقیدہ سے لے کر خارجہ تعلقات، حکومت اور سیاست تک منظم کرتا ہے۔
اسلام کا ایک منفرد نظام حکومت ہے جو نہ تو جمہوری، سرمایہ دارانہ، ریپبلکن، بادشاہت، قوم پرست، وطن پرست، وفاقی، یا کسی دوسری طرز حکومت سے ملتا جلتا ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی سے مماثلت رکھتا ہے جو آج کے دور میں عام ہیں یا ماضی میں کبھی موجود رہے ہیں۔
اسلام وحدت کا ایک ایسا نظام ہے جو مقرر کردہ شرعی احکام پر مبنی ہے جن میں کسی قسم کی کوئی رد و بدل نہیں کی جا سکتی، شرعی احکام جو انسانوں کی جانبدارانہ خواہشات اور محدود عقل کے تابع نہیں ہیں۔
اسلام میں نظام حکومت چار بنیادی اصولوں پر مبنی ہے اور ان چاروں کے بغیر نظام وجود میں نہیں آسکتا۔ اگر ان چار اصولوں میں سے کوئی ایک بھی ختم ہو جائے تو اسلامی حکمرانی، اسلام کی حاکمیت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ بنیادی اصول یہ ہیں: 1۔ حاکمیت شریعت کے پاس ہے، لوگوں کے پاس نہیں۔ (2) اختیار امت کا ہے۔ (3)تمام مسلمانوں کے لئے ایک واحد خلیفہ کا تقرر مسلمانوں پر شرعی ذمہ داری ہے۔ (4) صرف خلیفہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس وقت اسلامی شرعی احکام کی تبنی کرے، جب شرعی اختلافِ رائے پایا جائے، کیونکہ خلیفہ ہی وہ صاحب حیثیت ہے جو آئین اور دیگر تمام قوانین کو نافذ کرنے والا ہے۔ اور بلاشبہ یہ وہ اصول ہیں جو اسلامی شریعت کی بے شمار نصوص سے اخذ کردہ ہیں جنہیں صفحات کی کمی کے باعث یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
ایک بار جب یہ چار اصول مکمل طور پر قائم ہو جائیں گے تو ہم اسلامی حکمرانی کے معاملے میں پہلی اور بڑی رکاوٹ پر قابو پا لیں گے۔ اس کے بعد ہی ہم باقی ستونوں اور تفصیلات کی طرف بڑھ سکتے ہیں جو ریاست کے انتظامی اور حکومتی نظام سے لے کر معاشی اور معاشرتی نظام، تعلیم اور میڈیا پالیسی، خارجہ تعلقات، عوامی فلاح و بہبود کا انتظام، امت کی مشاورتی کونسل (مجلس الامت) اور مشاورت کی صوبائی کونسلوں (مجلس شوریٰ) تک ریاست کے ہر پہلو سے متعلق ہیں۔ یہ تمام عناصر اسلام میں موجود ہیں اور جب ارادہ موجود ہو تو عمل درآمد کے لئے فی الفور تیار ہیں۔
اسلام سے حکمرانی کا مسئلہ، ہم مسلمانوں کے لئے کوئی اختیاری معاملہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے یہ ایک شرعی فریضہ ہے جو رب العالمین اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہم پر عائد کیا گیا ہے،
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُولُهٓٗ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللّٰهَ وَرَسُولَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُبِينًا﴾
”اور کسی مومن مرد یا مومن عورت کو حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا“۔(الاحزاب:36)
اسلام کا حکم اسلامی شریعت کے مطابق ہمارے لئے ایک مصدقہ معاملہ ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ﴾
”)سن رکھو کہ( اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے“ (سورة یوسف؛ 12:40),
اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا،
﴿وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآاَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَ ھُمْ وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْكَ عَنْۘۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْكَ﴾
”اور یہ کہ(آپ ﷺ) ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلہ کریں،اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے گا۔ او ر ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں“ (المائدۃ؛ 5:49)،
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾
”اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں“(المائدۃ؛ 5:49)۔
یہ اور بہت سی دوسری قرآنی آیات ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ تمام احکامات کے مطابق حکومت کرنے کا پابند کرتی ہیں۔
اسلام میں حکومت کی وہ شکل جو ہمارے لئے ہمارے پیارے نبی ﷺنے بیان کی ہے، وہ خلافت ہے، جو دنیا کے تمام مسلمانوں کی عمومی قیادت ہے تاکہ اسلامی شریعت کے شرعی احکام کو نافذ کیا جائے اور اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک پھیلایا جائے۔ خلافت اور امامت ایک ہی ہوتی ہے۔
خلافت، اسلامی نظامِ حکومت، یہ حکم دیتا ہے کہ ریاست میں اسلام کے شرعی احکام کے علاوہ کوئی شے نہیں آ سکتی، نہ ہی بین الاقوامی تعلقات میں اور نہ خارجہ تعلقات میں، نہ شہریوں کے امور کی دیکھ بھال میں، نہ ہی ریاست کی کسی اور تفصیلات میں، صرف وہی احکام ہی قابل قبول ہیں جو اسلام کی شرعی احکام کے مطابق ہوں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ اس دنیاوی زندگی میں ہماری واحد کوشش اللہ کی رضا کا حصول ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کی رضا ہی ہمیں فتح یاب کرنے کے ساتھ ساتھ طاقت اور اور عزت دلا سکتی ہے۔
میں یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں: اسلام کے ذریعے حکمرانی کا مسئلہ ایک اہم ترین مسئلہ ہونا چاہئے، جسے ہمیں زندگی یا موت کے فیصلے کے طور پر لینا چاہئے، نہ کہ سودے بازی یا لین دین کے طور پر۔ ہمیں اسلام قبول کرنے اور اسلام سے حکومت کرنے کے نتائج کے بارے میں مغربی خوف و ہراس پر توجہ نہیں دینی چاہئے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّمَا ذٰلِکُمْ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ أَوْلِیَآءَہٗ فَلاَ تَخَافُوْھمْ وَخَافُوْنِ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾
”یہ خوف دلانے والا صرف شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے۔ تم ان کافروں سے نہ ڈرواورمجھ ہی سے ڈرو، اگر تم مومن ہو“۔(آل عمران؛ 3:175)
ہم ظالموں، جابر سرپرستوں، حکمرانوں اور ایجنٹوں کی طرف مائل نہیں ہوتے، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلاَ تَرْكَنُواْ إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ﴾
”اور جو لوگ ظالم ہیں، ان کی طرف مائل نہ ہونا، نہیں تو تمہیں (دوزخ کی) آگ چُھو لے گی اور اللہ کے سوا تمہارے اور دوست نہیں ہیں۔ اگر تم ظالموں کی طرف مائل ہوگئے تو پھر تم کو (کہیں سے) مدد نہ مل سکے گی“۔ (سورة ھود: 113)۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں کفار کی خواہشات کے ساتھ نرمی نہ برتنے کی تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
﴿وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ﴾
”وہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم نرمی اختیار کرو تو یہ بھی نرم ہوجائیں“۔ (سورۃ القلم:9)
جب ہم اللہ کے حکم کو اسلام کے ذریعے یعنی خلافت کے نظام کے ذریعے حکومت کرنے کا عزم کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں فتح عطا فرمائے گا کیونکہ فتح صرف اسی کی طرف سے آتی ہے۔ امت اسلامی حکومت کے گرد بالکل ویسے ہی متحد ہو جائے گی، جس طرح اوس اور خزرج رسول اللہ ﷺ کے گرد متحد ہو گئے تھے۔ پھر ہم ایک قابل فخر اور مضبوط امت بن کر لوٹیں گے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہمارے لیے فتح اور طاقت کے فیصلے کے بغیر کسی راستے پر نہیں چلے گی۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے،
﴿إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ اٰمَنُوا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ ﴾
”بے شک ہم رسولوں اور ایمان لانے والوں کی اس دنیا میں بھی مدد کریں گے اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے (یعنی قیامت کو بھی)“۔ (المومن؛ 40:51)