الجمعة، 16 محرّم 1447| 2025/07/11
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستانی قیادت نے بھارت اور ٹرمپ کے سامنے اپنی عزتِ نفس کیسے گنوائی؟

 

(ترجمہ شدہ)

 

بلال المہاجر / پاکستان

 

پاکستانی فضائیہ کے شاہینوں اور افواجِ پاکستان کے شیروں نے گزشتہ ماہ بھارت کو ایسا سبق سکھایا جو وہ کبھی نہیں بھولے گا، اور ایک شاندار فتح حاصل کی۔ مگر اس کے باوجود، پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت نے اس کامیابی کو عملی و سفارتی میدان میں سنبھالنے کے بجائے اسے گنوا دیا— اور جنگ بندی قبول کر لی— اور گویا انہوں نے اپنی ہی جیتی ہوئی بازی دشمن کے ہاتھ میں دے دی۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب بھارت مسلسل سندھ طاس معاہدے کو غیر مؤثر بنانے اور پاکستان کو دریائے سندھ سے بہنے والے تقریباً 80 فیصد پانی سے محروم کرنے پر تُلا ہوا ہے، اور کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ بھی جاری رکھنے پر بضد ہے۔ جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی تھونپنے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کیا — اور یوں بھارت کو اس دلدل سے نکال دیا جس میں وہ، طاقت کے حوالے سے غلط اندازے کی بدولت خود پھنسا تھا — تو پاکستانی حکومت نے پچھلے ہفتے ہفتہ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا اعلان کر دیا، اس دعوے کے ساتھ کہ اس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی کے مہینے میں "کشیدگی کم کرنے میں سفارتی کوششیں کیں۔"

 

پاکستانی حکومت کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا: "بھارت کی بلا جواز جارحیت کے بعد، صدر ٹرمپ نے ایک دور اندیش اسٹریٹیجک بصیرت اور غیر معمولی سیاسی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اسلام آباد اور نئی دہلی سے بھرپور سفارتی رابطے قائم کیے، جن کی بدولت نہ صرف بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی آئی، بلکہ جنگ بندی کو ممکن بنایا جا سکا اور دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک وسیع تر تصادم سے بچاؤ ممکن ہوا۔"

 

بیان میں مزید کہا گیا کہ حکومت "صدر ٹرمپ کی ان کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے جو انہوں نے جموں و کشمیر کے طویل تنازع کے حل کے لیے کیں، جو کہ دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کی بنیادی وجہ ہے۔"

 

پاکستانی موقف — جو کہ ایک فاتح ملک کا موقف ہونا چاہیے تھا — اور بھارتی موقف — جو کہ ایک شکست خوردہ ملک کا ہونا چاہیے تھا — کے درمیان ایک نہایت واضح اور شرمناک تضاد سامنے آیا، جب بھارتی موقف، پاکستانی قیادت کے جھکے ہوئے رویے کے مقابلے میں، کہیں زیادہ خوددار اور خودمختار ثابت ہوا۔

 

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، راندهیر جےسوال، نے صدر ٹرمپ کے ان بیانات کی تردید کی جن میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے بھارت اور پاکستان کو جنگ بندی کے بدلے تجارتی مراعات کی پیشکش کی تھی، اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر دونوں ممالک جنگ بندی پر آمادہ نہ ہوئے تو تجارتی تعلقات معطل کر دیے جائیں گے۔ جےسوال نے مزید کہا کہ جنگ بندی کا فیصلہ دونوں ممالک کی عسکری قیادتوں نے اپنی صوابدید پر کیا، اور اس میں کسی بیرونی قوت کا عمل دخل نہیں تھا۔

 

پاکستان نے ان بھارتی دعوؤں کی تردید نہیں کی، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی عسکری قیادت نے نہ صرف امت کو دھوکہ دیا، بلکہ فتح کو بغیر کسی دباؤ یا ثالثی کے محض اپنی کمزوری یا مصلحت کے تحت دشمن کے قدموں میں رکھ دیا۔ صدر ٹرمپ کی نامزدگی ایسے وقت میں سامنے آئی جب آرمی چیف جنرل منیر امریکہ کے دورے پر تھے اور وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کر رہے تھے۔ اسی ملاقات کے ایک دن بعد، امریکہ نے یہودی وجود کے ساتھ مل کر ایران کے تین جوہری ری ایکٹرز پر حملہ کیا۔

 

اگرچہ پاکستان میں اس فیصلے کے خلاف وسیع عوامی ردِعمل سامنے آیا — خصوصاً اس کے بعد کہ ٹرمپ ایران کے خلاف جنگ کی حمایت میں شامل ہو گیا اور اس نے یہودی وجود کو مسلسل مالی امداد اور اسلحہ فراہم کیا، وہ وجود جس نے غزہ کے ایک لاکھ سے زائد باشندوں کو قتل کیا — پھر بھی حکومتِ وقت اسے ’’امن کا علمبردار‘‘ قرار دینے پر مُصر ہے! ایک ایسے شخص کو ’’امن کا علمبردار‘‘ کیسے کہا جا سکتا ہے جس کے ہاتھوں سے مسلمانوں کا خون ٹپک رہا ہو!؟

 

اس تجویز کی سنگینی اس قدر تھی کہ خود حکومت سے وابستہ کئی شخصیات بھی خاموش نہ رہ سکیں اور انہوں نے اس فیصلے پر شدید تنقید کی۔ سابق سینیٹر مشاہد حسین نے ایکس (X) پر اپنے پیغام میں لکھا: "چونکہ ٹرمپ اب امن قائم کرنے والا ممکنہ رہنما نہیں رہا، بلکہ ایک ایسا لیڈر بن چکا ہے جس نے جان بوجھ کر ایک ناجائز جنگ بھڑکائی، لہٰذا حکومتِ پاکستان کو فوراً اس کی نامزدگی واپس لینی چاہیے۔"

 

اسی طرح، امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے اس فیصلے کو ’’قومی رسوائی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کھلم کھلا یہودی وجود کی فلسطینیوں کے خلاف کی جانے والی قتل و غارت کی حمایت کرتا ہے۔

 

رکنِ قومی اسمبلی علی محمد خان نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فیصلے پر نظرِ ثانی کرے، اور امریکی جارحیت کو ایران کے خلاف ایک واضح مثال کے طور پر پیش کیا۔

 

 

اسی طرح، امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر نے اس نامزدگی کو ’’سستے درجے کی سیاسی خوشامد‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ پاکستانی عوام کی رائے کی نمائندگی نہیں کرتا۔

 

یہ بات اب بالکل واضح ہو چکی ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ عوام کی خواہش یا امتِ مسلمہ سے اپنی وابستگی اور اُس کے مسائل کے احترام کی بنیاد پر نہیں، بلکہ محض ٹرمپ کی خوشنودی کے لیے کیا ہے۔

 

ایسے نظام کے تحت، جو ذاتی مفاد اور قلیل فائدے کی منطق پر چلتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ فوج کے کمانڈر منیر جیسے لوگ اپنے ذاتی مفادات اور مالی سودے بازیوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کے پیچھے ہلکی آوازوں کی صورت میں حمایت موجود ہوتی ہے، جیسے سابق سفیر جاوید حفیظ، جس نے اس نامزدگی کو یوں جواز دینے کی کوشش کی کہ پاکستان کو اس سے دو فائدے حاصل ہوئے: پہلا یہ کہ ٹرمپ کے ساتھ دوستی کا رشتہ برقرار رہا، جو ممکن ہے کہ ایک بار پھر بھارت کے ساتھ ثالثی کرے؛ اور دوسرا یہ کہ بھارت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، جو کسی بھی تیسرے فریق کی ثالثی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔

 

لیکن کیا کوئی سمجھدار شخص یہ مان سکتا ہے کہ ٹرمپ "امن کا علمبردار" ہے، جبکہ اسی نے اپنے صدر منتخب ہونے کے چھ مہینوں سے بھی کم عرصے میں عالم اسلام میں جنگوں اور قتل و غارت گری کی آگ بھڑکا چکا ہے؟ کیا یہ عقل کے خلاف نہیں کہ وہ اسلام آباد کا دوست ہو جبکہ وہ بھارت کا  اسٹریٹجک اتحادی ہے؟ اور کیا ٹرمپ واقعی کسی کے ساتھ دوستی کا قائل ہے، وہی جو اپنی رائے اور بیانات راتوں رات بدل دیتا ہے؟ کیا کوئی سمجھدار یہ تصور کر سکتا ہے کہ ٹرمپ، خطے میں اپنے پسندیدہ حلیف بھارت کے مقابلے میں مسلم پاکستان کو فوقیت دے گا؟ اور کیا واقعی بھارت پاکستان کی طرف سے ٹرمپ کی نامزدگی سے پریشان ہے، یا اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے خود ہی اپنے آپ کو اس ذلت آمیز صورتحال میں مبتلا کیا ہے؟

 

﴿مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ * أَفَلَا تَذَكَّرُونَ۔﴾

 

"تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم کیسا حکم لگاتے ہو؟ * کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟" (سورۃ الصافات: آیت 155-154)

 

Last modified onجمعرات, 10 جولائی 2025 19:48

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک