بسم الله الرحمن الرحيم
زُهران ممدانی کی نیویارک کے میئر کے طور پر فتح
ٹرمپ کی پالیسیوں کے لیے پہلی بڑی ناکامی
بقلم: استاد احمد الخطوانی
زُہران ممدانی نے نیویارک شہر کے میئر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، جو امریکہ کے سب سے بڑے شہر میں چار نومبر کو منعقد ہوئے تھے۔ اس فتح کے ساتھ، وہ پہلے ایسے میئر بن گئے جو ایک اہم امریکی شہر سے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر شامل ترقی پسند سوشلسٹ ڈیموکریٹک دھارے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی حکمران ریپبلکن پارٹی کی اہم حریف ہے، اور ممدانی اپنے قریب ترین حریف کے مقابلے میں بہت بڑے فرق سے کامیاب ہوئے۔
ممدانی چونتیس سال کے ہیں، کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل اور ایک امریکی ریپر ہیں۔ ان کے والد ہندوستانی نسل سے ہیں، اور ان کا خاندان ظاہری طور پر اسلام سے منسوب ہے، لیکن حقیقت میں وہ نِزاری اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، جسے کسی بھی معروف اسلامی مذہب یا مسلک کی جانب سے اسلامی اُمت کا حصہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ان کے والد محمود ممدانی امریکی یونیورسٹیوں میں معروف لیکچرر کے طور پر کام کرتے ہیں، جبکہ ان کی والدہ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی ایک فلم ڈائریکٹر ہیں۔ ان کے خاندان پر سیکولر تصورات کا غلبہ ہے، اور ان کے سماجی تعلقات میں مذہب کا کوئی اثر موجود نہیں ہے۔
زُہران ممدانی ہم جنس پرستوں اور ان سے منسلک ہم جنسی اور صنفی تبدیلی (ٹرانس جینڈر) کے حقوق دینے کے زبردست حامی سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے ذاتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی میں اپنے دھارے سے تعلق رکھنے والے گروہوں کے ذریعے ان شواذ (sexual deviants) کے حق میں، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ تمام سماجی طبقات کے لیے حقوق کی مساوات ضروری ہے، کروڑوں ڈالر جمع کیے ہیں۔
باوجود اس کے کہ ان کے اہم حریف کو کئی بڑے ارب پتیوں کی جانب سے 22 ملین ڈالر کی فنڈنگ ملی تھی، ممدانی نے انتخابات میں اپنے تمام حریفوں پر آسانی سے غلبہ حاصل کر لیا۔ اسی طرح، ٹرمپ کی جانب سے ان کی نامزدگی کے خلاف دی جانے والی کئی دھمکیوں کا بھی ان کے سیاسی عروج کو روکنے پر کوئی اثر نظرنہیں آیا۔
اس فتح کو ٹرمپ کے صدارت میں آنے کے بعد ریپبلکن پارٹی کے امیدواروں کی پہلی سیاسی شکست سمجھا گیا، اور یہ ٹرمپ کی ان پالیسیوں کے لیے پہلی حقیقی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے جو ان کی حکومت کے پہلے سال میں امریکی سیاسی منظر نامے پر چھا گئی تھیں۔
ممدانی کی فتح کی بنیادی وجہ ان کا (مسلمان) ہونا، یا مہاجر ہونا، یا حتیٰ کہ سوشلسٹ ڈیموکریٹ ہونا بھی نہیں تھی، بلکہ ان کی کامیابی کا اصل سبب ڈیموکریٹک پارٹی کی وسیع حمایت تھی، اور تمام دھاروں کا اس حمایت میں متحد ہو جانا تھا۔ ممدانی اصلاً ڈیموکریٹک پارٹی کے رسمی رکن ہیں، اگرچہ وہ سوشلسٹ بائیں بازو کے دھارے سے تعلق رکھتے ہیں، جو پارٹی کا کمزور دھارا ہے۔
ان کا انتخابی پروگرام جو غریبوں کا حامی ہے اور عوامی اداروں کی حمایت کرتا ہے، ان کی فتح کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک ہے۔ یہ پروگرام ایسے معاشرے میں کامیاب ہوا جہاں نیویارک شہر کے لالچی سرمایہ داروں کے خلاف عوام میں بہت زیادہ بےزاری بڑھ چکی تھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے عوام کو غریب کیا، ان کے عوامی فنڈز کو لوٹا، اور ملک کے اس معاشی دارالحکومت میں اپنے فائدے اور اپنی دولت کے مزید انبار لگانے کے لیے ہر چیز کی نجکاری کر دی۔
ممدانی نے سب کے لیے صحت کی دیکھ بھال (ہیلتھ کیئر) کو مفت کرنے، سرکاری تعلیم کی حمایت کرنے، اور ابتدائی مراحل کے تمام طلباء کے لیے سفری سہولیات (ٹرانسپورٹ) کو مفت کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے رہائشی قیمتوں کو منجمد کرنے، مزدوروں کی اجرتیں بڑھانے، تارکین وطن کی بے دخلی کو روکنے، عوامی سہولیات کو بہتر بنانے، اور صرف امیروں سے ٹیکس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔ انہوں نے اپنے انتخابی پروگرام کے لیے اسکینڈینیوین ماڈل اور فلاحی معیشت (Welfare Economy) کو مثال قرار دیا، اور مطالبہ کیا کہ ریاست کی معاشی سہولیات کے انتظام میں مزدوروں کو زیادہ اختیارات دیے جائیں۔
ممدانی نے جس پروگرام کی ترویج کی، وہ سرمایہ دارانہ سوشلزم کی ایک نقل ہے، جس کااس مارکسسٹ سوشلزم یا کمیونزم سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس کا جھوٹاالزام ٹرمپ نے ان پر لگایا۔ ممدانی صرف سرمایہ داری کی طرف واپسی چاہتے ہیں جس میں مزدوروں کے لیے کچھ مراعات شامل کر دی جائیں۔ انہوں نے ظلم و زیادتی کی ایک خوفناک حد کو چھو جانے والےسرمایہ دارانہ نظام پر کچھ سوشلسٹ پیوندکاری (patch-ups) کی ہے، جو کہ اس وقت ایک مٹھی بھر امیروں کے کنٹرول میں آ چکا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے تمام اہم حصوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔
سیاسی نقطہ نظر سے، ممدانی سوشلسٹ ڈیموکریٹ دھارے کے دیگر رہنماؤں کی طرح آئپیک (AIPAC) یعنی امریکی صہیونی لابی کے مخالف ہیں، اور فلسطینیوں کو حقوق دینے کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ یہودی وجود (اسرائیل) کو امریکی سرمایہ دار لابی کے نظام کا ایک حصہ سمجھتے ہیں، جو بڑی کارپوریٹ لابیوں کے ساتھ اتحادی ہے اوریہ لابی غزہ اور عمومی طور پر مشرق وسطیٰ میں قابض فوج کے جارحانہ اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔ یہودی وجود کے مجرمانہ اقدامات کے خلاف نفرت میں اس وقت اضافہ ہوا، جب خاص طور پر غزہ میں نسل کشی (جینوسائیڈ) کا الزام اس کے ساتھ لگنے لگا۔
یہودی وجود کے رویوں کے خلاف ان کے بیانات کو امریکی عوام میں پذیرائی ملی جو نتن یاہو حکومت کے وحشیانہ اقدامات پر پہلے ہی غصے میں تھے۔ چنانچہ، نیویارک کے انتخابی حلقے نے ممدانی کو وہ مناسب شخص پایا جو آئپیک کی طرف جھکاؤ رکھنے والے موقع پرست امریکی سیاستدانوں کو مسترد کرنے کے ان کے عزائم کو پورا کر سکتا ہے، جبکہ آئپیک امریکہ میں سب سے زیادہ نفرت انگیز لابیوں میں سے ایک بن چکی ہے۔
یہی ممدانی کی نیویارک کے میئر کے طور پر فتح کی سب سے اہم وجوہات ہیں، جہاں مکروہ لابیوں کے خلاف غریبوں کے دلوں میں چھپے ہوئے غصے کے جذبات، شہر کے رہائشیوں کی محسوس کردہ ٹھوس معاشی ضروریات کے ساتھ گھل مل گئے۔ انہوں نے ممدانی کے معاشی اور سیاسی پروگرام میں اپنا مقصود اور اپنی منزل دیکھی، چنانچہ انہوں نے ووٹوں کا ڈھیر لگا دیا، اور اس سیاسی سرمائے پر سبقت حاصل کر لی جو مکروہ لابیاں ضمیر خریدنے کے لیے خرچ کرتی ہیں۔
ممدانی کی فتح نے امریکی سیاست میں ایک اہم موڑ کی نمائندگی کی، جہاں سرمایہ داروں کو ان کے تجربات، دولت اور لابیوں کے باوجود نیویارک کے انتخابات میں ناکامی پر شدید جھٹکا لگا، اور نوجوانوں، غریبوں اور پسے ہوئے لوگوں کی آواز جیت گئی۔
اس بڑے شہر میں اس معمولی سی تبدیلی کے اندر مستقبل میں امریکی سیاست میں ایک بڑی بنیادی تبدیلی پوشیدہ ہے، جہاں سارے پتے گڈ مڈ ہو جائیں گے اور کھیل کے اصول بدل جائیں گے۔ وہ نوجوان جو کارپوریشنوں اور اسٹاک ایکسچینجز کے تسلط سے آزاد ہو چکے ہیں، امریکی سیاست کے ماہرین اور 'بزرگوں' پر اپنی سیاسی مرضی مسلط کرنا شروع کر دیں گے۔ جب تبدیلی کا اصول، ایک پرانے نظام پراپنا سایہ ڈالتا ہے، تو وہ پرانا نظام بتدریج تبدیل ہو جاتا ہے، اور لوگوں کی حقیقی ضروریات کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے، اور اب یہ آسودہ حال طبقے کی ضروریات پوری کرنے کا پابند نہیں رہتا۔
مستقبل میں یہ تبدیلی مسلمانوں اور دنیا کے تمام کمزور قوموں پر مثبت طور پر اثر انگیز ہو گی، امریکی اور مغربی استعماری گرفت دنیا پر بتدریج کمزور ہو جائے گی، بین الاقوامی کشمکش میں شدت آئے گی، اور نئی بین الاقوامی طاقتیں ابھریں گی، اور امریکہ بین الاقوامی سیاست پر اجارہ داری قائم کرنے سے محروم ہو جائے گا۔




