الجمعة، 29 جمادى الثانية 1447| 2025/12/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ :

رسول اللہ ﷺ کے مخلص حواری (وفادار اور جان نثار ساتھی)

اور اسلام کے جنگجو شہسوار

 


(ترجمہ)

 

الوعي میگزین – شمارہ نمبر 466

انتالیسواں سال، ذو القعدہ 1446 ہجری،

بمطابق مئی 2025 عیسوی

تحریر : عبدالمحمود العامري – یمن

 

زبیر بن العوام بن خویلد القرشي الأسدي رسولِ اکرم ﷺ کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے تھے اور اسلام قبول کرنے والے اولین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ اُن پہلے سات افراد میں شامل تھے جنہوں نے سب سے پہلے دینِ اسلام کو قبول کیا اور دارِ ارقم میں اسلام کی اولین جماعت کا حصہ بنے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، اور اسی وجہ سے وہ اُن ابتدائی لوگوں میں شامل ہوئے جنہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چوتھے یا پانچویں شخص تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔

 

زبیر رضی اللہ عنہ نے پہلی ہجرت کے دوران حبشہ کی طرف ہجرت کی، مگر وہاں زیادہ عرصہ نہ ٹھہرے۔ اس کے بعد انہوں نے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور دونوں نے مل کر یثرب کی طرف ہجرت کی، جسے بعد میں مدینہ المنورہ کے نام سے شہرت ملی۔ وہیں اسماءؓ کے ہاں عبداللہ بن زبیرؓ پیدا ہوئے، جو مدینہ میں مہاجرین کے ہاں پیدا ہونے والی پہلی نرینہ اولاد تھی۔

 

زبیر بن عوام ؓان دس خوش نصیب صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شامل تھے جنہیں جنت کی بشارت دی گئی، اور آپ اپنی کنیت ابو عبداللہ اور ابو طاہر سے جانے جاتے تھے۔ آپ ان چھ عظیم صحابہؓ میں بھی شامل تھے جنہیں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خلافت کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔

نسب :

 

آپؓ کا پورا نسب یوں ہے : زبیر بن العوام بن خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک بن النضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔ ان کے والد عوام، خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے بھائی تھے جو ام المومنین اور رسول اللہ ﷺ کی زوجہ تھیں۔

 

ان کی والدۂ محترمہ :

 وہ صفیہ بنت عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک بن النضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ہیں، جو ہمارے نبی محمد ﷺ کی پھوپھی تھیں۔

 

ان کی پیدائش اور پرورش :

 

زبیر رضی اللہ عنہ ہجرت سے تقریباً 28 سال قبل، 594 عیسوی کے لگ بھگ مکہ المکرمہ میں پیدا ہوئے۔ وہ قریش کے ایک شریف گھرانے میں پلے بڑھے اور کم عمری سے ہی اپنی دلیری کے لیے مشہور تھے۔ ان کی والدہ صفیہ نے انہیں سخت نظم و ضبط کے ساتھ پرورش دی، اور وہ کہا کرتے تھے: ’’كانت تضربني حتى أكون رجلاً‘‘  ’’وہ مجھے مارتی تھیں تاکہ میں ایک جوانمرد بن جاؤں‘‘۔

 

زبیر رضی اللہ عنہ نے سولہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، حالانکہ بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ وہ بارہ سال یا حتیٰ کہ آٹھ سال کے تھے۔ وہ دین قبول کرنے والے اولین افراد میں سے تھے، حالانکہ انہیں تشدد اور اذیت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ ان کے چچا ان پر تشدد کیا کرتے تھے، وہ ان کے اردگرد اس قدر دھواں سلگا دیتے تھے کہ وہ دَم گھٹ کر تقریباً موت کے قریب پہنچ جاتے تھے۔ پھر بھی الزُبیر فرماتے تھے: ’’والله لا أعود للكفر أبدًا‘‘ ’’اللہ کی قسم، میں کبھی کفر کی طرف واپس نہیں جاؤں گا‘‘۔

 

نکاح :

 

زبیر رضی اللہ عنہ کا نکاح اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنھا سے ہوا، جو ’ذات النطاقین‘ (دو دوپٹوں والی) کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ ان سے ان کے صاحبزادے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، جو بعد میں مسلمانوں کے عظیم رہنماؤں میں سے ایک بنے۔ ان کا گھرانہ ایمان، جدوجہد اور صبر کا گھر تھا، اور اسماءؓ پوری زندگی اُن کے لیے عظیم سہارا ثابت ہوئیں۔ انہوں نے دیگر خواتین سے بھی نکاح کیے تھے۔

 

زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹوں میں عبد اللہ، عروہ، المنذر، عاصم، المھاجر، جعفر، عبیدہ، عمرو، خالد، مصعب، اور حمزہ شامل تھے۔

 

جبکہ ان کی بیٹیاں خدیجہ الکبریٰ، خدیجہ الصغریٰ، امّ الحسن، عائشہ، حبیبہ، سودۃ،ھند، رملہ، اور زینب تھیں۔

 

زبیر بن عوامؓ نبی کریم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں :

 

زبیر بن عوامؓ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ تمام غزوات اور مہمات میں شرکت کی۔ آپ بہترین شہسواروں میں سے تھے، اور آپ کے بدن پر نیزوں اور تیروں کے تیس سے زیادہ زخموں کے نشانات تھے۔

 

علی بن زیدؒ بیان کرتے ہیں: »حَدَّثَنِي مَنْ رَأَى الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ صَدْرُهُ كَأَنَّهُ الْعُيُونُ مِنَ الطَّعْنِ وَالرَّمْيِ« ’’مجھے اس شخص نے بتایا جس نے زبیر بن عوامؓ کو دیکھا تھا کہ ان کا سینہ تلواروں اور تیروں کے زخموں سے اِس قدر بھرا ہوا تھا کہ دیکھنے والے کو وہ بہت سی آنکھوں یا گہرے گڑھوں کی طرح نظر آتا تھا‘‘۔

 

الحسن البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: »كَانَ بِالزُّبَيْرِ بِضْعَةٌ وَثَلَاثُونَ ضَرْبَةً، كُلُّهَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ« ’’زبیرؓ کے جسم پر تیس سے کچھ اوپر زخم تھے، اور یہ سب زخم انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہتے ہوئے جھیلے تھے‘‘۔

 

اور ابن شہابؒ بیان کرتے ہیں:  »لَمَّا أَتَى عَلِيٌّ رضي الله عنه بِسَيْفِ الزُّبَيْرِ جَعَلَ يُقَلِّبُهُ وَيَقُولُ: سَيْفٌ طَالَمَا جَلَا الْغَمَّ عَنْ وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ« ’’جب علی رضی اللہ عنہ کے پاس زبیرؓ کی تلوار لائی گئی تو آپ اسے اپنے ہاتھ میں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے اور فرمایا، ’’یہ وہ تلوار ہے جس نے بارہا رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ مبارک سے غم کو دور کیا‘‘۔

 

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ایک تابعی بیان کرتے ہیں: «صَحِبْتُ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فَأَصَابَتْهُ جَنَابَةٌ بِأَرْضِ قَفْرٍ، فَقَالَ: اسْتُرْنِي، فَسَتَرْتُهُ فَحَانَتْ مِنِّي الْتَفَاتَةٌ، فَرَأَيْتُهُ مُجَدَّعًا بِالسُّيُوفِ، قُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ بِكَ آثَارًا مَا رَأَيْتُهَا بِأَحَدٍ قَطُّ، قَالَ: وَقَدْ رَأَيْتَهَا؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ مَا مِنْهَا جِرَاحَةٌ إِلَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ.» ’’میں زبیر بن عوامؓ کے ساتھ ان کے ایک سفرمیں ہمراہ تھا۔ اور ایک ویران علاقہ میں انہیں غسلِ جنابت کی حاجت ہوئی۔ تو انہوں نے فرمایا: ’’مجھ پر پردہ کر دو‘‘۔ میں نے انہیں پردے میں کردیا، اور ایک لمحہ پر اچانک میری نظر ان پر پڑ گئی تو میں نے دیکھا کہ ان کے جسم پر تلواروں کے گہرے چھید لگے ہیں۔ میں نے کہا: ’’اللہ کی قسم! میں نے آپ کے جسم پر ایسے نشان دیکھے ہیں جو میں نے کسی اور پر کبھی نہیں دیکھے‘‘۔ انہوں نے پوچھا، ’’تم نے وہ نشان دیکھ لئے؟‘‘  میں نے کہا: ’’ہاں‘‘۔ انہوں نے جواب دیا: ’’اللہ کی قسم! ان میں سے کوئی بھی زخم ایسا نہیں جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اور اللہ کی راہ میں نہ لگا ہو‘‘۔

 

یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زبیرؓ کو مالِ غنیمت میں چار حصے عطا فرمائے، ایک حصہ خود ان کے لیے، دو حصے ان کے گھوڑے کے لئے، اور ایک حصہ ان حصوں میں سے جو رسول اللہ ﷺ کے قریبی رشتہ داروں کے لئے مخصوص تھے۔

 

زبیر رضی اللہ عنہ نے جنگِ بدر کے موقع پر عبیدہ بن سعید بن العاص کو قتل کیا تھا۔ وہ فرماتے ہیں: «لَقِيتُ يَومَ بَدْرٍ عُبَيْدَةَ بنَ سَعِيدِ بنِ العَاصِ وهو مُدَجَّجٌ، لا يُرَى منه إلَّا عَيْنَاهُ، وهو يُكْنَى أبو ذَاتِ الكَرِشِ، فَقالَ: أنَا أبو ذَاتِ الكَرِشِ، فَحَمَلْتُ عليه بالعَنَزَةِ فَطَعَنْتُهُ في عَيْنِهِ فَمَاتَ.» ’’جنگِ بدر کے دن میرا سامنا عبیدہ بن سعید بن العاص سے ہوا۔ وہ پورے زرہ بکتر میں ملبوس تھا، سوا ئےاس کی آنکھوں کے کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا ، اور وہ ابو ذات الکرش کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس نے کہا: ’’میں ابو ذات الکرش ہوں!‘‘، تو میں نے اپنا نیزہ لے کر اس پر حملہ کر دیا اور اس کی آنکھ میں وار کیا، اور وہیں وہ مارا گیا‘‘۔

 

ہشام کہتے ہیں، « قالَ هِشَامٌ: فَأُخْبِرْتُ أنَّ الزُّبَيْرَ قالَ: لقَدْ وضَعْتُ رِجْلِي عليه، ثُمَّ تَمَطَّأْتُ، فَكانَ الجَهْدَ أنْ نَزَعْتُهَا وقَدِ انْثَنَى طَرَفَاهَا.»  ’’مجھے بتایا گیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نے اس (عبیدہ) پر اپنا پاؤں رکھا، پھر پورے زور سے جھکا اور نیزہ نکالنے کی کوشش کی۔ بس مشکل سے نکال سکا، کیونکہ نیزے کے دونوں سرے مڑ چکے تھے‘‘۔

 

عروہؒ بیان کرتے ہیں: «فَسَأَلَهُ إيَّاهَا رَسولُ اللَّهِ ﷺ فأعْطَاهُ، فَلَمَّا قُبِضَ رَسولُ اللَّهِ ﷺ أخَذَهَا، ثُمَّ طَلَبَهَا أبو بَكْرٍ فأعْطَاهُ، فَلَمَّا قُبِضَ أبو بَكْرٍ سَأَلَهَا إيَّاهُ عُمَرُ، فأعْطَاهُ إيَّاهَا، فَلَمَّا قُبِضَ عُمَرُ أخَذَهَا، ثُمَّ طَلَبَهَا عُثْمَانُ منه، فأعْطَاهُ إيَّاهَا، فَلَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ وقَعَتْ عِنْدَ آلِ عَلِيٍّ، فَطَلَبَهَا عبدُ اللَّهِ بنُ الزُّبَيْرِ، فَكَانَتْ عِنْدَهُ حتَّى قُتِلَ۔» ’’رسول اللہ ﷺ نے زبیرؓ سے وہ نیزہ طلب فرمایا تو انہوں نے آپ ﷺ کو دے دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ کا وصال ہو گیا تو زبیرؓ نے وہ نیزہ واپس لے لیا۔پھر ابو بکرؓ نے وہ نیزہ طلب فرمایا تو زبیرؓ نے انہیں دے دیا۔ جب ابو بکرؓ کا وصال ہو گیا تو عمرؓ نے وہ نیزہ مانگا تو انہوں نے انہیں دے دیا۔جب عمرؓ شہید ہو گئے تو زبیرؓ نے وہ نیزہ واپس لے لیا۔ پھر عثمانؓ نے ان سے اس نیزہ کی درخواست کی تو انہوں نے انہیں دے دیا۔جب عثمانؓ شہید ہوئے تو وہ نیزہ آلِ علیؓ کے پاس آ گیا۔ پھر عبداللہ بن زبیرؓ نے اس نیزہ کی درخواست کی، اور وہ ان کے پاس تب تک رہا جب تک کہ وہ بھی شہید کر دئیے گئے‘‘۔

 

غزوۂ بدر میں زبیرؓ کو ضربیں لگیں اور وہ کافی زخمی ہوگئے۔ عروہؒ بیان کرتے ہیں: «كان في الزبير ثلاث ضربات: إحداهن في عاتقه، إن كنت لأدخل أصابعي فيها، ضرب ثنتين يوم بدر، وواحدة يوم اليرموك» ’’زبیرؓ کے بدن پر تین گہرے گھاؤ تھے۔ ان میں سے ایک ان کے کندھے پر تھا، جو اس قدر گہرا تھا کہ میں اس میں اپنی انگلیاں ڈال سکتا تھا۔ ان میں سے دو زخم انہیں غزوۂ بدر کے دن لگے تھے، اور ایک زخم غزوۂ یرموک کے دن‘‘۔

 

غزوۂ بدر کے دن زبیرؓ نے زرد  عمامہ باندھا ہوا تھا، اور اللہ کے فرشتے بھی زرد عمامے باندھے ہوئے نازل ہوئے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِنَّ الْمَلائِكَةَ نَزَلَتْ عَلَى سِيمَاءِ الزُّبَيْرِ.» ’’بے شک فرشتے زبیرؓ کی مشابہت میں نازل ہوئے تھے‘‘۔

 

غزوۂ بدر میں زبیرؓ نے انتہائی بہادری کے ساتھ قتال کیا، اور وہ تلوار اٹھانے والوں میں سب سے زیادہ دلیر اور نڈر مجاہدین میں شمار ہوتے تھے۔

 

غزوۂ اُحد :

 

غزوۂ اُحد کے موقع پر، جب بہت سے لوگ میدان چھوڑ گئے تھے، تو زبیرؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے تھے۔

 

زبیر بن عوامؓ غزوۂ اُحد میں شریک ہوئے اور اُن صحابہؓ میں شامل تھے جنہیں نبی کریم ﷺ نے جنگ کے بعد قریش کے لشکر کا تعاقب کرنے کے لئے مقرر فرمایا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت کے حوالے سے بیان کرتی ہیں،

 

 

﴿الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ

 

’’وہ لوگ جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کے حکم پر لبیک کہا، ان میں سے جو نیکی کرنے والے اور تقویٰ اختیار کرنے والے ہیں، اُن کے لئے بڑا اجر ہے‘‘ (آلِ عمران؛ 3:172)،

 

 

عائشہؓ نے عروہؒ سے فرمایا، «يا ابنَ أُختي، كانَ أبَوكَ منهُم: الزُّبَيْرُ وأبو بكرٍ، لما أصاب رسولَ الله ﷺ ما أصابَ يومَ أُحُدٍ، وانصَرَفَ عنه المُشرِكونَ، خافَ أنْ يَرْجِعوا، قال: مَن يَذهَبُ في إثْرِهِم. فانتدَبَ مِنهُم سَبْعينَ رَجلًا، قال: كان فيهم أبو بكرٍ والزُّبَيرُ» ’’اے میری بہن کے بیٹے! تمہارے آباء ان میں شامل تھے، زبیراور ابوبکر۔ جب غزوۂ اُحد کے دن رسول اللہ ﷺ کوبہت زیادہ تکلیف پہنچی ، اور مشرکین واپس لوٹ گئے، تو آپ ﷺ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ پلٹ نہ آئیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا، ’’ان کا تعاقب کرنے کون جائے گا؟‘‘ تو ستر آدمی تیار ہو گئے، جن میں ابوبکر اور الزبیر رضی اللہ عنہم شامل تھے‘‘۔

 

جب غزوۂ اُحد کے بعد مسلمان جنگ کے قیدیوں کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ واپس آئے، تو رسول اللہ ﷺ نے زبیرؓ کو حکم دیا کہ ابو عُزّہ الجُمحی کی گردن تن سے جدا کر دیں۔

 

ابن ہشام روایت کرتے ہیں:  « كان رسول الله ﷺ أسره ببدر، ثم مَنَّ عليه (أي بالفداء)، فقال: يا رسول الله، أقلني، فقال رسول الله ﷺ: والله لا تمسح عارضيك بمكة بعدها وتقول خدعت محمدًا مرتين، اضرب عنقه يا زبير، فضرب عنقه» ’’رسول اللہ ﷺ نے ابو عَزَّہ کو غزوۂ بدر میں قیدی بنایا تھا، پھر فدیہ کے بدلے اسے چھوڑ دیا تھا۔ اس نے کہا، ’’اے اللہ کے رسول! مجھے معاف فرما دیجئے‘‘۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’اللہ کی قسم! اب ایسا نہیں ہوگا کہ تم بعد میں مکہ جا کر گال پھلا کر بولتے پھرو کہ میں نے محمد ﷺ کو دو مرتبہ دھوکہ دیا ہے‘‘۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، ’’اے زبیر! اس کی گردن اڑا دو‘‘۔ چنانچہ زبیر نے اس کی گردن اڑا دی‘‘۔

 

غزوۂ خندق :

 

غزوہ خندق میں نبی کریم ﷺ نے بنو قریظہ کی خبر لینے کے لیے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور ان سے فرمایا: «فداك أبي وأمي» ’’میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں‘‘۔

 

زبیرؓ غزوۂ خندق میں شریک ہوئے اور اسی جنگ میں انہوں نے نوفل بن عبداللہ بن المغیرہ المخزومی کو قتل کیا۔ ابن اسحاقؒ روایت کرتے ہیں، ’’زبیرؓ نے اس پر ایسا وار کیا کہ وہ دو ٹکڑے ہو گیا، یہاں تک کہ ان کی تلوار پر نشان پڑ گیا۔پھر وہ یہ اشعار کہتے ہوئے واپس آئے: "إني امرؤ أحمي وأحتمي، عن النبي المصطفى الأمي" ’’میں وہ شخص ہوں جو چنے ہوئے پیغمبر، اُمی نبی مصطفیٰ کی طرف سے دفاع کرتا ہوں اور حفاظت کرتا ہوں‘‘۔

 

جب مسلمانوں میں یہ افواہ پھیلی کہ قبیلہ بنو قریظہ نے ان سے کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، اور رسول اللہ ﷺ کو خدشہ ہوا کہ بنو قریظہ واقعتاً ان کے ساتھ کیے گئے عہد کو توڑ سکتے ہیں، تو آپ ﷺ نے زبیر بن عوام ؓکو ان کی خبر لانے کے لئے مقرر فرمایا۔

 

جابر بن عبد اللہ بن حرامؓ بیان کرتے ہیں، «قال رسول الله ﷺ يوم الأحزاب من يأتينا بخبر القوم فقال الزبير: أنا، ثم قال: من يأتينا بخبر القوم، فقال الزبير: أنا، ثم قال: من يأتينا بخبر القوم، فقال الزبير: أنا، ثم قال: إن لكل نبي حواريّا وإن حواريّ الزبير» ’’جنگِ احزاب کے دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کون ہمیں دشمن کی خبر لا کر دے گا؟‘‘، زبیرؓ نے کہا: ’’میں‘‘۔ پھر آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا:’’کون ہمیں دشمن کی خبر لا کر دے گا؟‘‘، زبیرؓ نے کہا: ’’میں‘‘۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، ’’کون ہمیں دشمن کی خبر لا کر دے گا؟‘‘، تو زبیرؓ نے کہا:’’میں‘‘۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر نبی کا ایک خاص مددگار (حواری) ہوتا ہے، اور میرا حواری زبیر ہے‘‘۔

 

چنانچہ زبیرؓ گئے، انہوں نے صورتِ حال کا جائزہ لیا اور واپس آ کر عرض کیا: «يا رسول الله، رأيتهم يصلحون حصونهم ويدربون طرقهم، وقد جمعوا ماشيتهم» ’’یا رسول اللہ! میں نے دیکھا کہ وہ اپنے قلعے مضبوط کر رہے تھے اور راستوں کی نگرانی کر رہے تھے، اور انہوں نے اپنے مویشی بھی اکٹھے کر لیے تھے‘‘۔ اس دن رسول اللہ ﷺ نے زبیرؓ کے لیے اپنے ماں باپ کے فدا ہونے کی دعا دی اور ان سے فرمایا، «فداك أبي وأمي» ’’ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں‘‘۔

 

عبداللہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں: «كنتُ يومَ الأحزابِ جعلتُ أنا وعمرُ بنُ أبي سلمةَ في النساءِ، فنظرتُ فإذا أنا بالزبيرِ على فرسهِ يختلف إلى بني قريظةَ مرتينِ أو ثلاثًا، فلما رجعتُ قلتُ: يا أبتِ رأيتُكَ تختلفُ ؟ قال: أو هل رأيتَني يا بنيَّ؟ قلتُ: نعمْ، قال: كان رسولُ اللهِ ﷺ قال: من يأتِ بني قريظةَ فيأتيني بخبرِهم. فانطلقتُ، فلما رجعتُ جمعَ لي رسولُ اللهِ ﷺ أبويهِ فقال: فداكَ أبي وأُمِّي» ’’غزوۂ احزاب کے دن میں اور عمر بن ابی سلمہ عورتوں کے پاس محفوظ مقام میں موجود تھے۔ میں نے دیکھا کہ  زبیرؓ اپنے گھوڑے پر دو تین مرتبہ بنو قریظہ کی طرف آ جا رہے ہیں۔ جب وہ واپس آئے تو میں نے کہا، ’’ابّا جان! میں نے آپ کو آتے جاتے دیکھا تھا!‘‘، انہوں نے فرمایا، ’’بیٹے! کیا تم نے مجھے دیکھا تھا؟‘‘ میں نے کہا، ’’جی ہاں‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا، ’’کون ہے جو بنو قریظہ کے پاس جا کر مجھے ان کی خبر لا دے؟‘‘ چنانچہ میں گیا۔ جب میں واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے اپنے ماں باپ کو فدا ہونے کی دعا دی اور فرمایا: ’’میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں‘‘۔

 

غزوۂ خیبر :

 

زبیرؓ غزوۂ خیبر میں بھی شریک ہوئے، اور اسی جنگ میں انہوں نے یاسر بن ابی زینب کو قتل کیا تھا، جو یہودی تھا اور مرحب کا بھائی تھا۔ ابنِ اسحاقؒ بیان کرتے ہیں، "أن أخا مرحب وهو ياسر، خرج بعده وهو يقول: هل من مبارز؟ فزعم هشام بن عروة أن الزبير خرج له، فقالت أمه صفية بنت عبد المطلب: يقتل ابني يا رسول الله، فقال: «بل ابنك يقتله إن شاء الله»، فالتقيا فقتله الزبير" ’’مرحب کا بھائی یاسر، اس کے بعد میدان میں نکلا اور للکارتے ہوئے کہا، ’’ہے کوئی جو میرا مقابلہ کرے؟‘‘ ہشام بن عروہ کا بیان ہے کہ زبیرؓ اس کے مقابلے کے لیے نکلے۔ یہ دیکھ کر ان کی والدہ صفیہ بنت عبد المطلبؓ نے عرض کیا، ’’یا رسول اللہ! میرا بیٹا مارا جائے گا؟‘‘ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’بلکہ ان شاء اللہ تمہارا بیٹا ہی اسے قتل کرے گا‘‘۔ چنانچہ دونوں کا مقابلہ ہوا اور زبیرؓ نے یاسر کو قتل کر دیا‘‘۔

 

یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ جب کبھی زبیرؓ سے کہا جاتا، ’’اللہ کی قسم! اُس دن آپ کی تلوار بڑی تیز تھی!‘‘ تو وہ جواب دیتے، ’’والله ما كان بصارم، ولكني أكرهته‘‘ ’’اللہ کی قسم! میری تلوار درحقیقت تیز نہیں تھی، بلکہ میں نے پوری قوت سے اسے (دشمن پر) چلا دیا تھا‘‘۔

 

فتحِ مکہ :

 

فتحِ مکہ، غزوۂ حُنین اور غزوۂ تبوک کے موقع پر زبیرؓ اولین صف میں شامل نمایاں سپہ سالاروں میں سے تھے۔

 

زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا تھا تاکہ اُس عورت کو پکڑیں جو حاطب بن ابی بلتعہ کا خط لے کر جا رہی تھی۔ چنانچہ علی، زبیر اور مقداد گئے اور ’’روضہ خاخ‘‘ کے مقام پر، جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلے پر تھا، اُس عورت کو پکڑ لیا۔ انہوں نے اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے خط نہ نکالا تو وہ اس کی تلاشی لیں گے، پس عورت نے وہ خط انہیں دے دیا۔

اور جب مسلمان مکہ میں داخل ہوئے تو فتحِ مکہ کے موقع پر زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ مہاجرین کے تین جھنڈوں میں سے ایک کے علم بردار تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے خالد بن ولید کو دائیں جانب کے دستہ پر مقرر فرمایا، جبکہ زبیر بن عوام کو بائیں جانب کی فوج پر اور ابو عبیدہ کو درمیانی دستے (البیاذقۃ) پر۔ اور انصار کا جھنڈا سعد بن عبادہ کے پاس تھا۔

 

جب مسلمان ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو سعد بن عبادہ نے اس سے کہا، ’’آج جنگ کا دن ہے، آج حرمت حلال کر دی جائے گی، آج اللہ نے قریش کی ذلت مقدر کر دی ہے‘‘۔ جب رسول اللہ ﷺ ابو سفیان تک پہنچے تو اُس نے عرض کیا، ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ نے وہ بات سنی جو سعد نے کہی؟‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «وما قال؟» ’’اُس نے کیا کہا؟‘‘ پھر لوگوں نے آپ ﷺ کے سامنے سعد کے الفاظ دہرا دیئے۔ اس پر عثمان اور عبدالرحمٰن بن عوف نے عرض کیا، ’’یا رسول اللہ! ہمیں ڈر ہے کہ کہیں قریش انتقام نہ لے لیں‘‘۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «بل اليوم يوم تعظَّم فيه الكعبة، اليوم يوم أعزَّ الله فيه قريشاً» ’’نہیں، بلکہ آج وہ دن ہے جس میں کعبہ کی تعظیم کی جائے گی، آج وہ دن ہے جس میں اللہ نے قریش کو عزت بخشی ہے‘‘۔

 

پھر رسول اللہ ﷺ نے سعد کو بلایا اور ان سے رایہ لے کر ان کے بیٹے قیس بن سعد بن عبادہ کو دے دیا، اور بعض روایات کے مطابق یہ جھنڈا زبیر کو دیا گیا۔

زبیر رضی اللہ عنہ نے حجون کے مقام پر مسجدِ الفتح کے پاس اسلام کا جھنڈا نصب کیا، اور وہاں ان کے لئے ایک خیمہ بھی لگایا گیا۔ وہ وہیں ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ وہاں پہنچے۔ تب عباس بن عبدالمطلب نے ان سے کہا، ’’اے ابو عبداللہ! کیا رسول اللہ ﷺ نے آپ کو حکم دیا تھا کہ جھنڈا یہاں نصب کریں؟‘‘

 

خلفائے راشدین کے دور میں :

رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد، زبیر رضی اللہ عنہ اُن افراد میں شامل تھے جو مدینہ کی حفاظت پر مقرر کیے گئے تھے، کیونکہ بہت سے عرب قبائل مرتد ہوگئے تھے اور متعدد بدو قبیلے مدینہ پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

 

ابو بکر صدیقؓ نے شہر کے گرد رات کی پہرہ داری کا نظام قائم کیا تھا، ان محافظوں میں علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، طلحہ بن عبید اللہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم شامل تھے۔

زبیر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ارتداد کی جنگیں لڑیں اور بعد میں شام کی جانب جہاد کے لئے چلے گئے۔

 

معرکۂ یرموک :

 

زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے معرکۂ یرموک میں شرکت کی۔ یہ جنگ ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے آخری دور میں اور عمر فاروقؓ کی خلافت کے ابتدائی دور میں ہوئی تھی۔

 

ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں: "وقد كان فيمن شهد اليرموك الزبير بن العوام، وهو أفضل من هناك من الصحابة، وكان من فرسان الناس وشجعانهم، فاجتمع إليه جماعة من الأبطال يومئذ فقالوا: ألا تحمل فنحمل معك؟ فقال: إنكم لا تثبتون. فقالوا: بلى، فحمل وحملوا فلما واجهوا صفوف الروم أحجموا وأقدم هو، فاخترق صفوف الروم حتى خرج من الجانب الآخر، وعاد إلى أصحابه ثم جاؤوا إليه مرة ثانية، ففعل كما فعل في الأولى، وجرح يومئذ جرحين بين كتفيه، وفي رواية: جرحًا" ’’معرکۂ یرموک میں شریک ہونے والوں میں زبیر بن عوام بھی تھے، اور کبار اور دلیر ترین صحابۂ کرام میں سے شمار ہوتے تھے، نہایت ماہر گھڑ سوار تھے۔ اس دن کئی جانبازوں کا ایک گروہ ان کے گرد جمع ہوا اور انہوں نے کہا، ’’کیا آپ حملہ نہیں کریں گے تاکہ ہم بھی آپ کے ساتھ حملہ کریں؟‘‘، زبیرؓ نے جواب میں فرمایا، ’’تم ثابت قدم نہیں رہو گے‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’کیوں نہیں! (ہم ثابت قدم رہیں گے)‘‘۔ پھر زبیر رضی اللہ عنہ نے حملہ کیا اور سب نے ان کے ساتھ حملہ کیا۔ لیکن جب وہ رومی فوج کی صفوں کے سامنے پہنچے تو زبیر کے ساتھی ہچکچا کر رک گئے اور وہ اکیلے آگے بڑھتے رہے اور رومیوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے دوسری طرف نکل گئے، پھر اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آ گئے۔ پھر وہ ساتھی دوسری بار پھر ان کے پاس آئے، اور زبیرؓ نے وہی کیا جو پہلی مرتبہ کیا تھا۔ اُس دن انہیں اپنے کندھوں کے درمیان دو گہرے گھاؤ لگے تھے، اور ایک روایت کے مطابق ایک گھاؤ لگا تھا‘‘۔

 

عروہ کہتے ہیں: "كان في الزبير ثلاث ضربات: إحداهن في عاتقه، إن كنت لأدخل أصابعي فيها، ضرب ثنتين يوم بدر، وواحدة يوم اليرموك" ’’زبیرؓ کے بدن پر تین گہرے گھاؤ تھے۔ ان میں سے ایک ان کے کندھے پر تھا، جو اس قدر گہرا تھا کہ میں اس میں اپنی انگلیاں ڈال سکتا تھا۔ ان میں سے دو گھاؤ انہیں غزوۂ بدر کے دن لگے تھے، اور ایک زخم غزوۂ یرموک کے دن‘‘۔

 

فتحِ مصر :

 

زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے فتحِ مصر میں بھی حصہ لیا۔ جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مصر کی فتوحات کے لیے روانہ ہوئے تو انہوں نے خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کمک طلب کی۔

 

خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر بطور کمک روانہ کیا۔ مسلمان مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ یہ کمک بارہ ہزار جنگجو مجاہدین پر مشتمل تھی، اگرچہ بعض روایات میں دس ہزار جنگجوؤں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مسلمانوں کو زبیر بن عوام، عبادہ بن صامت، مقداد بن اسود، اور مسلمہ بن مخلد انصاری رضی اللہ عنہم جیسے نامور صحابہ کی آمد سے بہت خوشی ہوئی۔

 

شمس الدین ذہبی ذکر کرتے ہیں کہ جب زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ایک جنگجو کی حیثیت سے جہاد کے لیے مصر کی طرف روانہ ہوئے تو امیرِ مصر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا: «إن الأرض قد وقع بها الطاعون، فلا تدخلها» ’’اس علاقے میں طاعون پھیل چکا ہے، لہٰذا یہاں داخل نہ ہوں‘‘۔ انہوں نے جواب دیا: «إنما خرجت للطعن والطاعون» ’’میں تو طعن (یعنی نیزے کے وار) اور طاعون دونوں کے لئے آگے بڑھ چکا ہوں‘‘۔ پس وہ مصر میں داخل ہوئے، اور انہیں پیشانی پر ایک نیزے کا وار لگا جس سے وہ زخمی ہو گئے۔

 

بابل کا قلعہ فتح کرنے میں بھی زبیر رضی اللہ عنہ کا نمایاں کردار رہا تھا۔ وہ چند مسلمانوں کے ساتھ قلعے کی فصیل پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگایا، تو قلعہ والوں نے سمجھا کہ مسلمان قلعہ فتح کر چکے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے مورچوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ زبیرؓ نیچے اترے اور قلعے کا دروازہ اسلامی لشکر کے لیے کھول دیا، اور مسلمان اندر داخل ہو گئے۔

 

ایک اور روایت میں ہے کہ جب زبیرؓ فصیل پر چڑھ گئے تو قلعے کی محافظ فوج کو صورتحال کا اندازہ ہو گیا۔ انہوں نے خود ہی دروازہ عمرو بن العاص کے لیے کھول دیا اور صلح پر آمادگی ظاہر کی۔ عمروؓ نے ان کی صلح قبول کر لی۔ زبیرؓ نیچے اترے اور قلعے کے لوگوں کے ساتھ دروازے سے باہر آئے، اور یوں بابل کا قلعہ فتح ہو گیا۔ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اس صلح نامے کے گواہ بھی تھے جو عمرو بن العاص نے اہلِ مصر سے کیا تھا۔

 

جب عمر بن خطابؓ کو زخمی کیا گیا اور وہ اپنی موت کے قریب تھے، تو انہوں نے وصیت کی کہ ان کے بعد خلافت کا معاملہ چھ افراد کی باہمی مشاورت (شوریٰ) سے طے ہو، جن کے بارے میں جب رسول اللہ ﷺ دنیا سے رخصت ہوئے تو آپﷺ ان سے راضی تھے۔ وہ صحابہؓ یہ تھے: عثمان بن عفانؓ، علی بن ابی طالبؓ، طلحہ بن عبیداللہؓ، زبیر بن عوامؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ، سعد بن ابی وقاصؓ۔

 

زبیر بن العوام کا مشہور قول :

 

زبیر بن عوامؓ نے فرمایا: نَحْنُ أُمَّةٌ لَا تَمُوتُ إِلَّا قَتْلَى، فَمَالِي أَرَى الْفِرَاشَ قَدْ كَثُرَ عَلَيْهَا الْأَمْوَاتُ؟ ’’ہم ایک ایسی امت ہیں جو شہادت کے سوا نہیں مرتی۔ تو پھر میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ اپنے بستر پر مرنے والوں کی تعداد کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟‘‘

 

شہادت :

 

زبیر بن العوام نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں پیش آنے والے تمام غزوات میں حصہ لیا۔ غزوۂ بدر میں وہ دائیں جانب کے لشکر (میمنہ) کے سالار تھے، اور فتحِ مکہ میں مہاجرین کے تین رایات (جھنڈوں) میں سے ایک کے علمبردار تھے۔ اور مصر کی فتح میں عمرو بن العاصؓ کی مدد کے لیے عمرفاروقؓ نے جن صحابہؓ کو کمک کے طور پر بھیجا، ان میں بھی وہ شامل تھے۔ عمرؓ نے خلافت کے مشورے (شوریٰ) کے لیے جن چھ صحابہؓ کو نامزد کیا تھا، ان میں زبیرؓ بھی شامل تھے، اور انہوں نے فرمایا تھا: «هُمُ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ» ’’یہ وہ لوگ ہیں جن سے رسول اللہ ﷺ اپنی وفات کے وقت راضی تھے‘‘۔

 

عثمان بن عفانؓ کی شہادت کے بعد وہ قاتلانِ عثمان سے قصاص کے مطالبے کے لیے بصرہ گئے۔ پھر جنگِ جمل کے موقع پر عمرو بن جرموز نے انہیں شہید کر دیا۔ یہ واقعہ 36ہجری کے رجب میں پیش آیا، اس وقت ان کی عمر چونسٹھ (64) سال تھی۔

 

وہ اس سے پہلے جنگ سے گریز کر چکے تھے، کیونکہ انہیں نبی کریم ﷺ کی وہ نصیحت یاد آ گئی تھی، جس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا، «إِنَّكَ سَتُقَاتِلُ عَلِيًّا وَأَنْتَ لَهُ ظَالِمٌ» ’’تم علی سے جنگ کرو گے حالانکہ تم ہی ان پر ظلم کرنے والے ہوگے‘‘۔ یوں وہ جنگ چھوڑ کر واپس ہو گئے، مگر بعد میں ان کے ساتھ دھوکا ہوا اور وہ شہید کر دئیے گئے۔

 

اللہ تعالیٰ الزبیرؓ پر رحم فرمائے، کہ وہ مسلمان مجاہد کی اُس علامت کے طور پر جانے جاتے تھے جو کبھی ذلت کو قبول نہیں کرتا، باطل کے خلاف خاموش نہیں رہتا، ثابت قدم رہتا ہے اور اسلام کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا۔

Last modified onجمعرات, 18 دسمبر 2025 19:09

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک