الأحد، 19 جمادى الأولى 1447| 2025/11/09
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال و جواب

سوڈان : ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کی جانب سے الفاشر کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد

(ترجمہ)

سوال:

”امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے امور کے سینئر مشیر، مسعد بولوس نے تصدیق کی ہے کہ سوڈانی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) نے تین ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے، جو 12 ستمبر کو اعلان کردہ چار ملکی منصوبے کی بنیاد پر ہے، جس میں متحدہ عرب امارات، امریکہ، سعودی عرب، اور مصر  شامل ہیں ... “ (اسکائی نیوز عربیہ، 03 نومبر، 2025ء)۔

 

اس امریکی منصوبے پر سوڈانی فریقوں، یعنی سوڈانی حکومت اور ریپڈ سپورٹ فورسز(RSF) کی یہ رضامندی اس وقت سامنے آئی جب RSF نے دارفور کے دارالحکومت الفاشر پر قبضہ کر لیا۔ ان معاہدوں کے پسِ پردہ کیا حقائق ہیں؟ ایسی کیا صورتحال پیدا ہوئی کہ سوڈانی فوج الفاشر کو کھو بیٹھی حالانکہ اس نے طویل عرصے تک ریپڈ سپورٹ فورسز(RSF) کے حملوں کے خلاف اس بڑے اور مضبوط قلعہ بند شہر کا دفاع کیا تھا ؟ آخر یہ شہر کس طرح ان کے ہاتھوں سے نکل گیا؟ اور اس سب کے نتائج و اثرات کیا ہیں؟

 

جواب:

مذکورہ بالا سوالات کے جواب کی وضاحت کے لئے ہم درج ذیل نکات کا جائزہ لیں گے :

اول : الجزیرہ نے اپنی ویب سائٹ پر 28 اکتوبر 2025ء کو رپورٹ کیا:

”ریپڈ سپورٹ فورسز نے اتوار کی صبح اعلان کیا کہ انہوں نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری محاصرے کے بعد الفاشر پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ فورسز نے دارفور کی تمام پانچ ریاستوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیا ہے، اور ملک اب دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے، یعنی مشرقی حصہ جوسوڈانی فوج کے کنٹرول میں ہے اور مغربی حصہ جو ریپڈ سپورٹ فورسز کے زیرِ قبضہ ہے“۔

 

الجزیرہ کی رپورٹ کا خلاصہ یہ واضح کرتا ہے کہ ریپڈ سپورٹ فورسز کا الفاشر پر قبضہ کر لینا محض جنگ میں کسی شہر کا جیت لینا نہیں ہے، بلکہ پورے خطے پر ایک غیر معمولی غلبہ حاصل کر لینا ہے! ریپڈ سپورٹ فورسز نے اس شہر کا ایک سال تک محاصرہ کیا ہوا تھا، اور ان کے پاس وہ جدید ہتھیار بھی نہیں تھے جو سوڈانی فوج کی دفاعی یونٹس کے مقابلے میں فیصلہ کن جیت دلا سکتے۔ یہ یونٹس ایک سال تک بہادری سے شہر کا دفاع کرتی رہیں، لیکن اچانک برہان کی حکومت نے علیحدگی پسند باغی کمانڈر حمدان دگالو (حمیدتی)، جو ریپڈ سپورٹ فورسز کا سربراہ ہے، اس کے حوالے شہر سونپ دیا۔ یہ حوالگی کھلم کھلا اور بالکل واضح انداز میں کی گئی تھی۔

1- ”سوڈان کی خودمختار کونسل کے چیئرمین عبد الفتاح البرہان نے کہا کہ سوڈانی عوام اور مسلح افواج بالآخر کامیابی حاصل کر لیں گے، اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شمالی دارفور کی ریاست کے دارالحکومت، الفاشر میں قیادت کا جائزہ یہ تھا کہ یہ شہر الفاشر جس قدر تباہی کا شکار ہو چکا ہے، اسے خالی کر دیا جائے“۔ (الجزیرہ نیٹ، 27 اکتوبر 2025ء)، پھر انہوں نے اپنے بیان کے بعد کھوکھلے سے الفاظ کہے، ”البرہان نے ٹیلی ویژن پر دئیے گئے ایک خطاب میں مزید کہا کہ 'ہماری افواج فتح حاصل کرنے، بساط پلٹ دینے، اور علاقے واپس حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں'، اور انہوں نے مزید کہا، 'ہم اپنے تمام شہداء کا انتقام لینے کے لیے پرعزم ہیں'“۔

2- ”سوڈانی فوجی ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا کہ سوڈانی فوج نے الفاشر میں ایک ڈویژن ہیڈ کوارٹر کو 'حکمت عملی کی وجوہات' کی بنا پر خالی کر دیا“۔ (الجزیرہ نیٹ، 27 اکتوبر 2025ء)

عبدالفتاح البرہان اور اس کے فوجی ذرائع کے ان بیانات سے حتمی طور پر نہیں تو بہرحال واضح طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شہر کو ریپڈ فورسز کے رحم وکرم پر چھوڑتے ہوئے، سوڈانی فوج نے الفاشر کو خالی کر دیا۔

 

دوئم : البرہان کی حکومت اور اس کی فوجی قیادت نے ایک سال تک اپنے مرکزی علاقوں سے الفاشر میں موجود اپنے دستوں کو فوجی اور لاجسٹک امداد فراہم کرنے سے گریز  کئے رکھا۔ نتیجتاً، یہ دستے محاصرے میں رہے، اور شہر کے اندر ہی موجود محدود وسائل کے ساتھ ریپڈ سپورٹ فورسز کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہے اور انہیں پیچھے دھکیلتے رہے۔ برہان حکومت کی فوجی کمانڈ نے، جس نے الخرطوم، أم درمان، اور بحري شہر سے ریپڈ سپورٹ فورسز کا صفایا کرنے کا دعویٰ کیا تھا، یقینی طور پر الفاشر میں بھی اپنے بڑے دستوں کی مدد کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی، مگر وہ ایک سال تک ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ بالفاظِ دیگر، منصوبہ ہی یہ تھا کہ ان دستوں کو ڈھیر ہونے دیا جائے۔

 

سوئم : جب معاملے کو قریب سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ علیحدگی پسند باغی حمیدتی کی فورسز کو شہر حوالہ کرنے کا عمل عین اس وقت شروع ہوا جب امریکہ دونوں سوڈانی فریقوں کے درمیان جنگ بندی کے مقصد سے امریکہ میں مذاکرات کروا رہا تھا۔ ”سوڈانی خودمختار کونسل کی جانب سے واشنگٹن میں ریپڈ سپورٹ فورسز کے ایک وفد کے ساتھ براہِ راست یا بالواسطہ مذاکرات کی تردید کے بعد، سفارتی ذرائع نے انکشاف کیا کہ سوڈانی وزیرِ خارجہ محی الدین سالم سرکاری دورے پر امریکہ پہنچ گئے ہیں، اور ان کا مقصد سوڈان میں دو سال سے جاری جنگ کو روکنے کے لیے کی جانے والی کوششوں پر بات چیت کرنا ہے“۔ (العربیہ، 24 اکتوبر 2025)

 

 

اس کا مطلب ایک ہی ہے: امریکہ نے اپنے دونوں سوڈانی ایجنٹوں — برہان اور حمیدتی — کے وفود کو واشنگٹن میں بُلاحاضر کیا، اور سوڈانی خودمختار کونسل کی جانب سے واشنگٹن میں ریپڈ سپورٹ فورسز کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرنا ہی دراصل اس بات کا ثبوت ہے۔ امریکہ کے ان دونوں ایجنٹوں کو دئیے گئے امریکی احکامات پر کھلم کھلا عمل درآمد دو یا تین دن بعد الفاشر میں کیا گیا۔ اسی ذرائع کے مطابق، ”ذرائع نے العربیہ/الحدث نیوزکو جمعہ کے روز بتایا کہ سوڈانی وزیر واشنگٹن میں امریکی انتظامیہ کے حکام سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع کریں گے، جن میں امریکی صدر کے سینئر مشیر برائے مشرقِ وسطیٰ و افریقی امور، مسعد بولوس بھی شامل ہیں۔ ذرائع نے مزید کہا کہ سالم اپنے کئی عرب ہم منصبوں سے بھی ملاقات کریں گے، اور یہ دورہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے دی گئی باضابطہ دعوت پر کیا جا رہا ہے تاکہ باہمی دلچسپی کے کئی امور پر گفتگو کی جا سکے۔ ایک امریکی عہدیدار نے العربیہ/الحدث نیوز کو یہ بھی بتایا کہ بولوس سوڈانی بحران پر چار فریقی اجلاسوں کی صدارت کریں گے“۔

 

 

امریکہ کی جانب سے اپنے دو ایجنٹوں کے وفود کو واشنگٹن میں اکٹھا کرنے کا مزید ثبوت یہ ہے کہ ایک سفارتی عہدیدار نے گزشتہ روز، جمعرات کے دن، اس بات کی تصدیق کی کہ چار رکنی گروپ (امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور مصر) آج واشنگٹن میں سوڈانی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کرے گا تاکہ دونوں فریقوں کو تین ماہ کے لئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کے لئے مجبور کیا جا سکے۔ اس نے کہا کہ اس ملاقات کا مقصد ہے ”دونوں فریقوں پر متفقہ طور پر دباؤ ڈالنا تاکہ جنگ بندی کو مصمم کیا جا سکے اور انسانی امداد کو شہریوں تک پہنچنے کی اجازت دی جاسکے“۔ (العربیہ، 24 اکتوبر 2025)

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ ریپڈ سپورٹ فورسز کے الفاشر پر حملے اور سوڈانی فوج کی جانب سے اس کے خالی کئے جانے کا وقت، اور واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات کا وقت بِلا کسی شک و شبہ کے اس بات کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ اس سٹریٹجک شہر کو ریپڈ سپورٹ فورسز کے حوالے کرنے کا فیصلہ واشنگٹن میں کیا گیا تھا، اور دونوں سوڈانی فریقوں نے فوراً اس فیصلہ پر عمل درآمد شروع کر دیا، یعنی ٹھیک دو دن بعد اور تیسرے دن نتیجہ حاصل کر لیا گیا۔

 

چوتھا نکتہ : واشنگٹن میں ہونے والی مذکورہ ملاقات دراصل دوسرا مرحلہ تھی، جو پہلے مرحلے کے بعد منعقد ہوئی، جب امریکہ نے اپنے ایجنٹوں اور خطے میں موجود اپنے ان تابعدار ممالک کو جمع کیا، جنہیں چار رکنی گروپ (سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر) کہا جاتا ہے، اور سوڈان میں لڑائی روکنے کے لیے اپنا حکم نافذ کرنا شروع کیا۔العربیہ نیوز نے 12 ستمبر 2025ء کو اس اجلاس سے جاری ہونے والا بیان رپورٹ کیا:

”مشترکہ بیان میں کہا گیا: 'امریکہ کی دعوت پر، امریکہ، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے سوڈان میں جاری تنازعہ پر تفصیلی مشاورت کی۔ اور یاد دہانی کرائی گئی کہ اس تنازعہ نے دنیا کے بدترین انسانی بحران کو جنم دیا ہے اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا کر رہا ہے۔ وزراء نے اپنے اس عزم کی توثیق کی کہ وہ سوڈان میں تنازعہ کے خاتمے کے لیے مشترکہ اصولوں کے پابند ہیں'۔ بیان کے چوتھے نکتے میں کہا گیا: 'سوڈان میں حکومت کا مستقبل سوڈانی عوام خود ایک جامع اور شفاف عبوری عمل کے ذریعے طے کریں گے، جس پر متصادم فریقین میں سے کسی کا بھی کنٹرول نہیں ہوگا'۔ بیان کے ایک اور نکتے میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ : 'سوڈانی مسلح افواج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کی مؤثر شرکت کے ساتھ تنازعہ کے حل کے لیے مذاکراتی تصفیے کی حمایت میں تمام ممکنہ کوششیں کی جائیں گی'“۔

 

ایک طرف تو یہ چار رکنی گروپ ایک ایسا فارمولا ہے جو امریکہ نے اس لیے منتخب کیا تاکہ سوڈان کے مسئلے کا اس کا حل علاقائی رنگ میں ظاہر ہو، یعنی یہ کہ خطے کے اہم ممالک کی منظوری سے ہو۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ ممالک واشنگٹن کی ہدایت کے بغیر ہرگز حرکت میں نہیں آتے، اور امریکہ کے اشارے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ دوسری طرف، بیان کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوڈان کے تنازعہ میں شامل دونوں فریقوں کو مساوی ہم پلہ حیثیت میں تسلیم کیا گیا ہے اور انہیں مؤثر طور پر شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ یعنی، بیان میں ریپڈ سپورٹ فورسز کو علیحدگی پسند یا باغی فورسز کے طور پر نہیں پیش کیا گیا، نہ ہی انہیں اپنی بغاوت ختم کرنے کی تلقین کی گئی ہے، حالانکہ انہوں نے سوڈان کو تقسیم کرنے کے لیے ایک علیحدہ حکومت تشکیل دے رکھی ہے۔

 

پانچواں نکتہ : ریپڈ سپورٹ فورسز کے الفاشر، جو ایک اسٹریٹجک شہر ہے، اس پر قبضہ کر لینے کے بعد ان کا اس علاقے پر کنٹرول دراصل پورے دارفور خطے پر قبضے کے مترادف ہے، کیونکہ اس کی پانچ میں سے زیادہ تر ریاستیں پہلے ہی ریپڈ سپورٹ فورسز کے عملی کنٹرول میں تھیں۔ لہٰذا، تین ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کرنا یا اس کا مطالبہ کرنا دراصل امریکہ کا یہ تسلیم کرنا ہے کہ ریپڈ سپورٹ فورسز کا کنٹرول ہو اور دارفور خطے میں، اور خاص طور پر خطے کے سب سے اہم شہر، الفاشر میں ریپڈ سپورٹ فورسز کی قانونی موجودگی رہے۔ یہ جنگ بندی، جسے امریکہ ”چار فریقی معاہدہ“کے طور پر پیش کر رہا ہے، دراصل اگلے مرحلے کی راہ کو ہموار کرتی ہے، یعنی سوڈان کے تنازعہ میں شامل دونوں فریقوں کے درمیان مزید مذاکرات۔ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب امریکہ کے منصوبوں نے ریپڈ سپورٹ فورسز کو پورے دارفور پر قابض ہونے کا موقع فراہم کر دیا، اور جب امریکہ کے ایجنٹ حمدان دگالو (حمیدتی) نے ایک علیحدگی پسند حکومت بھی قائم کر لی، جس کا اعلان اس نے فروری 2015ء کے آخر میں کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں کیا تھا، اور خود اس کا سربراہ بن گیا تھا۔ حمیدتی کی یہ حکومت جنوبی دارفور کے دارالحکومت نیالا سے کام کر رہی تھی، اور اب اس علیحدگی پسند حکومت کو الفاشر منتقل ہونے کے لیے راستہ مکمل طور پر ہموار ہو چکا ہے۔

 

چھٹا  نکتہ : جہاں تک امریکہ کے مؤقف کا تعلق ہے، وہ بالکل واضح تھا اور اس نے ریپڈ سپورٹ فورسز کے الفاشر پر قبضے پر کسی قسم کی ناراضگی یا تشویش کا اظہار بھی نہیں کیا۔ بلکہ امریکہ نے سوڈان کے لیے اپنے منصوبے کے اگلے مرحلے، یعنی جنگ بندی کی دعوت دی۔ اس سے سوڈانی فوج کے لیے الفاشر کو دوبارہ حاصل کرنے کا راستہ مکمل طور پر بند ہو جائے گا اور حمیدتی کا کنٹرول کسی قسم کی سنگینی صورتحال کے بغیر مضبوطی سے قائم ہو جائے گا۔

”افریقی امور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر مسعد بولوس نے سوڈان میں متحارب فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ مجوزہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی پر غور کریں اور فوری طور پر اسے منظور کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر تین ماہ کی جنگ بندی کی ایک تجویز پیش کی ہے، جس کا سوڈانی تنازعہ کے دونوں فریقوں نے خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے ریپڈ سپورٹ فورسز پر زور دیا کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر جنگ بندی کے ساتھ آگے بڑھیں اور لڑائی ختم کر دیں۔ بولوس نے ایک روز قبل کہا تھا کہ دنیا ریپڈ سپورٹ فورسز کی کارروائیوں اور الفاشر کی صورتحال کو شدید تشویش کے ساتھ دیکھ رہی ہے اور شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا ہے“۔ (الجزیرہ نیٹ، 27 اکتوبر 2025)

 

یہ بات بعد میں دوبارہ اس وقت کی گئی جب اسکائی نیوز عربیہ نے 3 نومبر 2025ء کو رپورٹ کیا: ”امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے امور کے سینئر مشیر، مسعد بولوس نے تصدیق کی کہ سوڈانی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز نے تین ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے، جو چار رکنی، متحدہ عرب امارات، امریکہ، سعودی عرب اور مصر  کے 12 ستمبر کو اعلان کردہ منصوبے کی بنیاد پر ہے۔ بولوس نے پیر کے روز قاہرہ سے دیے گئے اپنے بیان میں وضاحت کی کہ جنگ بندی کے حتمی دستخط سے قبل تکنیکی اور لاجسٹک بات چیت جاری ہے، اور یہ بھی بتایا کہ دونوں فریقین کے نمائندے کچھ عرصے سے واشنگٹن میں موجود ہیں تاکہ اس کی تفصیلات پر بات چیت کی جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کی تجویز بحران کے خاتمے کے لیے ایک حقیقی موقع کو ظاہر کرتی ہے، اور اس نے زور دیا کہ سوڈانی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز امریکہ کی جانب سے پیش کردہ ایک دستاویز پر بات چیت میں مصروف ہیں، جسے چار رکنی گروپ کی حمایت حاصل ہے اور جس کا مقصد امن قائم کرنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ سوڈان میں جاری تنازعہ خطے اور دنیا کے لیے، خصوصاً بحیرہ احمر کی سلامتی کے لیے، ایک خطرہ بن چکا ہے“۔ (اسکائی نیوز عربیہ، 3 نومبر 2025)

 

ساتواں نکتہ : امریکی صدر ٹرمپ کے اس دعوے کے تناظر میں کہ وہ امن کو قائم کرنے والا ہے اور جنگیں ختم کرتا ہے، یوں اس طرح امریکہ تقریباً کھلے اور واضح طور پر اپنے اُس منصوبے پر عمل کر رہا ہے اور تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے جس کے تحت سوڈان کو تقسیم کیا جائے اور دارفور کے خطے کو سوڈان سے الگ کر دیا جائے، بالکل اسی طرح جیسے پہلے سوڈان کے جنوب کو الگ کر دیا گیا تھا۔ یہی وہ بات ہے جس سے ہم بار بار خبردار کرتے رہے ہیں۔ 21 مئی 2025ء کو ”ڈرون حملے اور سوڈان کی جنگ میں پیش رفت“ کے عنوان سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ہم نے کہا تھا:

”ان تمام حقائق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مشرقی سوڈان میں بڑے حملے، خصوصاً شہر پورٹ سوڈان کی اسٹریٹجک تنصیبات پر ہونے والے حملے دراصل دارفور کی جنگ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان حملوں کا مقصد فوج کو الفاشر پر حملہ کرنے سے روکنا اور اسے مجبور کرنا ہے کہ وہ پورٹ سوڈان کا دفاع کرنے کے لیے مشرق کی طرف منتقل ہو“۔

اور ہم نے مزید کہا تھا کہ،

”چوتھا: یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ کافر استعماری امریکہ سوڈان میں ایسی جنگ برپا کئے ہوئے ہے جو جانیں نگل رہی ہے، اور وہ اپنے ایجنٹوں کو اس کام کے لیے کھلم کھلا استعمال کر رہا ہے، خفیہ طور پر نہیں بلکہ اعلانیہ۔ برہان اور حمیدتی سوڈانی عوام کے خون سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں، اور اس کی واحد وجہ امریکہ کے مفادات کی خدمت کرنا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ سوڈان کو دوبارہ تقسیم کر دے، جیسا کہ اس نے پہلے جنوبی سوڈان کو الگ کر دیا تھا۔ اب وہ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ دارفور کو باقی سوڈان سے الگ کر دے۔ اسی لیے سوڈانی فوج اپنی توجہ سوڈان کے باقی علاقوں پر مرکوز کر رہی ہے، جبکہ ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) دارفور پر توجہ دے رہی ہے۔ اگر فوج میں موجود مخلص عناصر دارفور پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے متحرک ہو جائیں، تو ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) جنگ کو سوڈان کے دوسرے علاقوں میں منتقل کر دے گی تاکہ فوج کی توجہ بٹ جائے، اور وہ دارفور سے اپنی فوجیں ہٹا کر مشرقی سوڈان کی طرف لے جائے۔ اسی مقصد کے لیے ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) مشرقی علاقوں میں ڈرون حملے بڑھا رہی ہے، تاکہ دارفور پر مکمل قبضہ حاصل کر سکے!“

 

اور اس سے پہلے، 6 فروری 2025ء کو پوچھے گئے سوال ”سوڈان میں عسکری کارروائیوں میں شدت“ کے جواب میں ہم نے خبردار کیا تھا کہ سوڈان کی سیاسی اور عسکری ایجنٹ قیادت، جو ٹرمپ انتظامیہ سے ہدایات لیتی ہے، یہ قیادت فوج کو یہ حکم دے رہی ہے کہ وہ وسطی علاقے سے دارفور کی جانب ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے لیے راستے کھول دے۔ ہم نے کہا تھا:

”چھٹا: اس کے مطابق، غالب امکان یہی ہے کہ سوڈان میں یہ عسکری پیش رفت ٹرمپ کی نگرانی میں ترتیب دی جا رہی ہے، اور ان کا مقصد درج ذیل ہے:

1- امریکہ کے منصوبے میں تیزی لانا، جس کے تحت ملک کو امریکہ کے ایجنٹوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا: دارفور ریپڈ سپورٹ فورسز اور حمیدتی کے زیراقتدار رہے گا، جبکہ برہان کی قیادت میں سوڈانی فوج وسطی اور مشرقی سوڈان پر قابض رہے گی، یوں دو الگ اکائیاں سامنے آئیں گی۔ اور یہ صورتحال حمیدتی کے دارفور پر قابض ہونے کے باعث بن چکی ہے۔ ہم نے اسی منصوبے کا ذکر 19دسمبر، 2023ء کو ایک سوال کے جواب میں بھی کیا تھا، جہاں ہم نے وضاحت کی تھی کہ: ”امریکہ حالات تیار کر رہا ہے کہ جب اس کے مفادات تقاضا کریں تو ملک کو تقسیم کر دے۔ اگر امریکہ کے مفاد میں جنوبی سوڈان کے بعد دوسری تقسیم بھی ہو، تو وہ دارفور میں یہ کام کرے گا … وقت شاید ابھی نہیں آیا، لیکن حالات کی تیاری ابھی سے کی جا رہی ہے“۔ یہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں، اور اب ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کے مفاد کے قریب ہے کہ دارفور کو اسی طرح الگ کر دیا جائے جیسے جنوبی سوڈان کو کیا گیا تھا۔… اور اگر ٹرمپ اس کو نافذ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ انتہائی خطرناک ہو گا۔ اس لیے امت کو چاہیے کہ اس کا راستہ روکے اور خاموش نہ رہے جیسے جنوبی سوڈان کی علیحدگی پر وہ خاموش رہی تھی!“

 

آٹھواں نکتہ: حزب التحریر امسال کے آغاز سے، بلکہ 2023ء سے ہی خبردار کرتی آ رہی ہے جب امریکہ نے اپنے ہی دو ایجنٹوں کے درمیان یہ جنگ بھڑکائی تھی، کہ امریکہ کا سوڈان کو تقسیم کرنے کا منصوبہ عملی شکل اختیار کرنے والا ہے۔ اور اب، آپ کی آنکھوں کے سامنے یہ تقسیم کے مراحل تیزی سے واضح ہوتے چلے جا  رہے ہیں۔ بہت سے سوڈانی لوگ اس خونی تصادم میں پھنس چکے ہیں جو امریکہ کے ایجنٹ اپنی جنگ کے ذریعے امریکہ کے مقاصد پورے کرنے اور سوڈان پر اس کے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لئے لڑ رہے ہیں۔ آج، امریکی منصوبہ اپنے آخری مرحلے کے قریب پہنچ چکا ہے، یعنی دارفور کو سوڈان سے الگ کرنے کے مذموم مقصد کے قریب۔ اور یہ سب ہو رہا ہے جبکہ آپ صرف دیکھ رہے ہیں! کیا فوج میں کوئی ایک بھی عاقل اور قوی کمانڈر نہیں جو ایک لمحہ کے لیے بیٹھ کر اپنے رب کے سامنے اخلاص کا عہد کرے، اور وہ اقدامات کرے جو امریکہ کے منصوبے کو ناکام بنائیں اور ان ایجنٹوں کو ہٹا دیں جنہوں نے صرف واشنگٹن کے مطالبات پورے کرنے کے لیے دسیوں ہزار سوڈانیوں کو قتل کر دیا اور لاکھوں باشندوں کو بے گھَر کر دیا؟ کیا فوج میں کوئی ایک  بھی عاقل اور طاقتور کمانڈر موجود نہیں جو سوڈان کی طاقت کو مخلص ہاتھوں کے حوالے کرے، حزب التحریر کو نصرۃ (مادی مدد) دے، وہ جماعت جو عرصہ سےانہیں  پکار رہی ہے، خبردار کرتی رہی ہے اور اسلام کے قیام کی دعوت دیتی رہی ہے، تاکہ سوڈان سے اسلامی ریاست، یعنی نبوت کے طریقے پر دوسری خلافتِ راشدہ قائم ہو؟ اور کتنا عظیم ہوگا وہ صالح اور قوی شخص جو اللہ کے حضور اس حال میں حاضر ہو کہ اللہ نے اسی کے ذریعے اپنے نبی ﷺ کی وہ بشارت پوری فرمائی ہو جس میں اس جبر کے دور کے بعد خلافتِ راشدہ کی واپسی کا ذکر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،  «...ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَت» ”...پھر جبرو استبداد والی حکمرانی ہوگی، اور وہ باقی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر وہ اسے اُٹھا لے گا جب وہ اسے اُٹھانا چاہے گا، پھر نبوت کے طریقے پر (دوبارہ) خلافت ہوگی، پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے“۔ (مسند ِاحمد)

12 جمادی الاول 1447 ہجری

 

بمطابق 3 نومبر 2025 عیسوی

Last modified onاتوار, 09 نومبر 2025 19:51

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک