الخميس، 02 ذو الحجة 1446| 2025/05/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

دنیا بھر سے مسلمانوں کی خبریں

 

الوعی میگزین: شمارہ نمبر 462، 463، اور 464

 

انتالیسواں سال — رجب، شعبان، رمضان 1446 ہجری

 

بمطابق — جنوری، فروری، مارچ 2025 عیسوی

 

(ترجمہ)

 

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) ٹرمپ انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ غزہ کے لئے بعد از جنگ منصوبے کو ختم کر دے۔

 

خبر رساں ادارے، ”مڈل ایسٹ آئی (MEE)“نے 17 مارچ کو رپورٹ کیا کہ: ”یو اے ای ٹرمپ انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے لیے بعد از جنگ اس منصوبے کو ناکام بنائے جو مصر نے تیار کیا تھا اور جس کی توثیق عرب لیگ، امریکہ اور مصری حکام نے کی ہے“۔

 

مڈل ایسٹ آئی نے مزید کہا: ”یہ منصوبہ غزہ کی پٹی کے مستقبل کے نظم و نسق اور تعمیر نو پر عرب ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی مقابلہ آرائی کو ظاہر کرتا ہے، نیز اس بارے میں مختلف آرا کو بھی کہ حماس کو وہاں کتنی طاقت حاصل رہنی چاہیے“۔

 

رپورٹ میں بتایا گیا کہ: ”اماراتی دباؤ قاہرہ کے لئے ایک مشکل صورتحال پیدا کر رہا ہے کیونکہ یو اے ای اور مصر دونوں مجموعی طور پر غزہ کے لئے ایک ہی فلسطینی طاقتور شخصیت، محمد دحلان (فتح کے جلاوطن سابق عہدیدار) کی حمایت کرتے ہیں“۔ MEE نے مزید لکھا: ”یو اے ای عرب لیگ کے منصوبے کی منظوری کے وقت واحد مخالف ریاست نہیں بن سکتا تھا، لیکن اب وہ اسے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر ناکام بنا رہا ہے“،ایک امریکی اہلکار نے MEE کو بتایا“۔

 

MEE نے رائے دی: ”یو اے ای وائٹ ہاؤس تک اپنی لاجواب رسائی کا فائدہ اٹھا رہا ہے تاکہ اس منصوبے کو ناقابل عمل قرار دے اور قاہرہ پر یہ الزام لگائے کہ اس نے حماس کو بہت زیادہ اثر و رسوخ دے دیا ہے۔ امریکہ کے لئے یو اے ای کے طاقتور سفیر، یوسف العتیبہ، صدر ٹرمپ کے قریبی حلقے اور امریکی قانون سازوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ مصر پر زور ڈالیں کہ وہ جبراً بے دخل کئے گئے فلسطینیوں کو قبول کرے، ایک امریکی اور ایک مصری اہلکار نے MEE کو بتایا“۔

 

الوعي: مسلم حکمرانوں، خاص طور پر متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کی امت مسلمہ سے غداری اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ ایجنٹ اپنے آقاؤں کی خواہشات پوری کرنے کے لئے ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں، اور یہاں تک کہ اپنی قوم کے وسائل بھی ان آقاؤں کی خوشنودی کے لئے ضائع کر رہے ہیں۔ یہ حکمران اس دنیا میں ہی اپنی محنت و سرمایہ خرچ کر ڈالیں گے، لیکن آخرکار دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے اور آخرت میں بھی پشیمانی ان کا مقدر بنے گی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّواْ عَن سَبِيلِ اللّهِ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ

”یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکیں، وہ اسے خرچ کرتے ہی رہیں گے، پھر یہ اُن پر حسرت بن جائے گا، پھر وہ مغلوب ہوں گے، اور کافر جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے“۔ (التوبہ؛ 9:36)

 

یہود کی طرف سے غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے قابض صیہونی فوجیوں پر گہرے نفسیاتی اثرات

 

”اسرائیلی یونین فار ٹراما-Israeli Coalition for Trauma“کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنس ”نفسیاتی ممانعت“ کے دوران ایک تحقیق سامنے آئی جس میں یہ انکشاف ہوا کہ غزہ پر برپا اس جنگ کے صیہونی فوجیوں پر نہایت گہرے نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کانفرنس میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق دماغی صحت کے مراکز میں آنے والوں کی تعداد چار گنا تک بڑھ گئی ہے، جبکہ ان دماغی مراکز کی مصروفیات دس گنا تک بڑھ چکی ہیں۔

 

”والا الإسرائيلي“ اسرائیلی نیوز ویب سائٹ کے سوشل افیئرز اور ہیلتھ رپورٹر أفيحاي حاييم کے مطابق، ذہنی صحت کے مراکز اب ”اسرائیلی“ نظام صحت کا ایک بنیادی حصہ بن چکے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب سکیورٹی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور جنگ جاری ہے۔ اس صورتحال نے ان خدمات کو وسعت دینے اور اس شعبے میں عملے کی افرادی تعداد کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پیدا کر دی ہے۔

 

”اسرائیلی یونین فار ٹراما“ کی ایک اہلکار، كارين كابيتكا هوبرمان کے مطابق، غزہ میں نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے اب تک کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ماہرینِ نفسیات اور دماغی مسائل پر مشورہ دینے والے تربیت یافتہ ماہرین کی تعداد میں 800 فیصد اضافہ ہوا ہے، جنہوں نے کلینکل یونٹس میں 290,000 گھنٹوں تک تھراپی فراہم کی۔ اور 8,900 افراد نے علاج معالجے کی ان ورکشاپس میں شرکت کی اور 72,000 افراد نے کمیونٹی سطح کے اقدامات میں حصہ لیا۔

 

اعداد و شمار میں یہ بھی بتایا گیا کہ غزہ کے گردونواح میں واقع اُن نام نہاد علاقوں میں، جو قابض افواج کے لئے مخصوص ہیں (جنہیں ”غزہ انکلیو“ کہا جاتا ہے)، ان میں رہنے والے 28 فیصد رہائشی نفسیاتی علاج حاصل کر رہے ہیں، جبکہ مجموعی طور پر مختلف مراکز میں علاج حاصل کرنے والے ”اسرائیلیوں“ کی تعداد 34,083 افراد تک پہنچ چکی ہے۔

 

الوعي: یہ ہے وہ حال اس یہودی فوج کا، جس نے جدید ترین ہتھیاروں اور اپنی بڑی تعداد کے ساتھ جب چند مسلمان نوجوانوں سے جنگ کی تو اس حال تک جا پہنچی ہے۔ تو ذرا سوچئے، کہ اگر اس یہودی فوج کو مسلمانوں کی صرف ایک فوج کا ہی سامنا کرنا پڑے تو اس کا کیا حشر ہوگا؟ اور اگر خلافتِ اسلامیہ قائم ہو جائے اور یہودیوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دے تو اس کا کیا حال ہو گا؟ شاید مسلمانوں کی فوج کو فائر کرنے کی نوبت بھی نہ آئے، کیونکہ یہودی تو اعلانِ جنگ کے ساتھ ہی تتر بتر ہو جائیں گے، ان شاء اللہ !

 

 

یہودی وجود نے امریکہ کی طرف سے گرین سگنل ملتے ہی غزہ پر جنگ دوبارہ شروع کر دی ہے

 

برطانوی اخبار ”دی گارڈین“نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ قابض افواج کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی”انسانی زندگیوں کے ساتھ ساتھ رہی سہی امیدوں کو بھی تباہ کر رہی ہے“۔

 

اداریے میں وضاحت کی گئی کہ ”یہودی وجود کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت صرف اس ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے سہارے پر قائم ہے، جس کی قیمت فلسطینیوں اور مغویوں کو چکانی پڑ رہی ہے“۔ اداریے میں مزید کہا گیا کہ منگل 18 مارچ کو ہونے والے واقعات ”تنازعہ کے ابتدائی مہینوں کے بعد سب سے زیادہ ہلاکت خیز دنوں میں سے ایک“ تھے۔

 

اخبار نے قابض ریاست کی جانب سے دہشت گرد اہداف کو نشانہ بنانے کے دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ”محکمہ صحت کے حکام کے مطابق غزہ میں ہلاک ہونے والے 400 سے زائد افراد میں سے 174 بچے اور 89 خواتین تھیں“۔

 

اداریے میں مزید کہا گیا کہ ”فوج کی جانب سے جاری کردہ نئے انخلاء کے احکامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صدمے سے دوچار اور بار بار بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے خلاف دوبارہ زمینی حملہ کیا جا سکتا ہے۔ بینجمن نیتن یاہو نے خبردار کیا کہ یہ ’صرف آغاز‘ ہے اور فوج نے صدموں سے دوچار اور باربار بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لئے انخلاء کے نئے احکامات جاری کر دئیے ہیں“۔ دریں اثناء، اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ بھی خوف اور غصے میں مبتلا ہیں اور حکومت پر تنقید کر رہے ہیں کہ اس نے اُنہیں چھوڑ دیا ہے۔

 

الوعي: ہم اس سے بڑھ کر کوئی فصیح و بلیغ بات نہیں کریں گے جو حزب التحریر کے بیان میں کہہ دیا گیا ہے، جہاں افواج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا:

 

”کیا تم میں کوئی صالح شخص موجود نہیں“ جو فوج کی قیادت کرے اور اُن رویبضہ، نااہل حکمرانوں کی باندھی ہوئی زنجیروں کو توڑ ڈالے، جنہوں نے یہود کے خلاف لڑنے سے روک رکھا ہے؟! پھر اسلام کے مجاہد سپاہی نکلیں گے اور وہی کچھ حاصل کریں گے جس کی خبر صادق اور مصدوق نے ہمیں دی ہے۔ بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا:

«تُقَاتِلُكُمْ الْيَهُودُ فَتُسَلَّطُونَ عَلَيْهِمْ..»

”یہودی تم سے لڑیں گے اور تم ان پر غالب آؤ گے…“

اور مسلم نے روایت کیا:

«لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ..»

”تم ضرور یہودیوں سے جنگ کرو گے اور ضرور اُنہیں قتل کرو گے…“

پھر تم اس یہودی وجود کو اس سرزمینِ مبارکہ سے جڑ سے اکھاڑ دو گے، اور یہ سرزمین دوبارہ دارالاسلام بن جائے گی، جیسے عمرؓ نے اسے اسلام کے لئے کھولا، صلاح الدین ایوبیؒ نے آزاد کروایا، اور سلطان عبد الحمیدؒ نے اسے محفوظ رکھا!

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

”اور اس دن اہلِ ایمان خوش ہوں گے، اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے نصرت دیتا ہے، اور وہ غالب، مہربان ہے“۔ (الروم: 4-5)

 

 

ترکی میں گرفتاریاں اور مظاہروں پر پابندیاں : آخر وہاں ہو کیا رہا ہے؟

 

19 مارچ 2025ء کو ترک حکام نے استنبول کے میئر، أكرم إمام أوغلو کو کرپشن اور ایک دہشت گرد تنظیم کی مدد کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا۔ یہ گرفتاری ایسے وقت میں ہوئی جب وہ ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کی جانب سے 2028ء کے صدارتی انتخابات کے لئے متوقع امیدوار تھے۔ امام‌اوغلو صدر رجب طیب اردوان کے ایک نمایاں حریف کی حیثیت رکھتے ہیں اور توقع کی جا رہی تھی کہ وہ 2028ء کے آئندہ صدارتی انتخابات میں سی ایچ پی (CHP) کی جانب سے امیدوار نامزد کیے جائیں گے۔

 

ان کی گرفتاری استنبول یونیورسٹی کی جانب سے ان کی ڈگری کے منسوخ کئے جانے کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوئی، جس سے ممکنہ طور پر امکان ہے کہ انہیں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے سے روکا جا سکتا ہے، کیونکہ ترکی کے آئین کے مطابق صدارتی امیدوار کے لئے یونیورسٹی کی ڈگری ہونا لازمی ہے۔ امام‌اوغلو کے علاوہ، گرفتار ہونے والوں میں ان کے معاونین اور استنبول کے مختلف اضلاع کے میئرز سمیت 100 سے زائد افراد شامل تھے۔

 

ان گرفتاریوں نے استنبول سمیت ترکی کے دیگر شہروں میں احتجاج کی لہر کو جنم دیا، جس پر سی ایچ پی (CHP) نے انہیں جمہوریت کے خلاف ایک ”سول مارشل لاء“قرار دیا۔

 

ان احتجاجات کے جواب میں، حکام نے استنبول میں چار دن کے لئے مظاہروں اور اجتماعات پر پابندی عائد کر دی، جبکہ شہر میں سکیورٹی بھی بڑھا دی گئی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ X (سابقہ ٹوئٹر) اور انسٹاگرام تک رسائی کو بھی محدود کر دیا گیا ہے۔

 

الوعي: اردوگان نے دو دہائیوں سے زائد عرصے تک ترکی پر سیکولرزم کے ساتھ حکومت کی ہے، جس میں اس نے نہ تو اسلام کی حمایت کی، اور نہ ہی مسلمانوں کی مدد کی، اور نہ ہی سیکولر پسندوں یا کمالسٹ پسندوں کی مکمل حمایت حاصل کر پایا۔ اب اگر اس کی سیاسی آب وتاب ماند پڑ جائے اور اس کی توانائیاں بھی ختم ہونے لگیں تو وہ اپنے استعماری آقاؤں کی حمایت کھو بیٹھے گا۔ اور یہ کوئی بعید از امکان نہیں کہ اس کے استعماری آقا بالکل ویسے ہی اسے بھی ہٹا دیں گے، جیسے وہ دوسرے ممالک کے حکمرانوں کو ہٹا چکے ہیں۔ انہیں اردوگان کی ذرا بھی پروا نہیں ہے۔ اسی لئے اردوگان آج اپنے اقتدار کو لاحق ہر ممکن خطرے کو ختم کرنے پر تُلا ہوا ہے ... اور یہی جمہوریت کا اصل روپ ہے !

 

 

یہودی وجود شام پر بار بار حملے کیوں کر رہا ہے؟ اور وہ آخر کس کو نشانہ بنا رہا ہے؟

 

یہودی فضائیہ نے جنوبی شام کے علاقے درعا میں اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں۔ قابض فوج کے ترجمان کے مطابق، ان حملوں کا نشانہ وہ فوجی مقامات تھے جن میں سابق شامی حکومت کے ہتھیار اور عسکری سامان موجود تھا، اور اب اس اسلحہ کو موجودہ حکومت کے حامی مسلح گروہ استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 

یہ حملے درعا کے نواحی علاقوں، اسلحہ و بارود کے گوداموں، 175ویں رجمنٹ، عسکری رہائش گاہوں، إزرع شہر میں 12ویں بریگیڈ، اور اس کے علاوہ شمالی درعا کے نواح میں إنخل شہر میں 15ویں بریگیڈ پر کئے گئے۔ ان حملوں میں نئی شامی حکومت کے وفادار فوجی ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

 

 

ان حملوں میں معزول صدر بشار الاسد کی حکومت کی 132ویں بریگیڈ اور علاقے میں موجود ایرانی ملیشیاؤں کے زیر کنٹرول مراکز بھی نشانہ بنے۔ مزید حملے دمشق کے نواحی علاقے کسوہ اور اس کے اطراف تل المانع میں بھی کئے گئے۔ یہودی فوج کے سربراہ نے ان حملوں کو ”جنوبی شام میں ان ہتھیاروں کی موجودگی اسرائیل کے لئے خطرہ ہے“ کہہ کر جواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج ”بفر زون اور جنگ بندی لائن کے قریب کسی بھی عسکری خطرے کو برداشت نہیں کرے گی اور اس کے خلاف کارروائی کرے گی“۔ (بحوالہ: اسرائیل چینل-13)

 

الوعي: کیا یہ حملے اس بات کا تقاضا نہیں کرتے کہ یہودی وجود کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا جائے؟! خصوصاً جبکہ غزہ میں مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ مسلسل جاری ہے! شام کے مجاہدین کہاں ہیں؟ آخر وہ یہودی وجود کے خلاف کارروائیاں کیوں نہیں کر رہے؟ کیا یہ سب شام کی اپنی سلامتی کے لئے بھی خطرہ نہیں ہے؟

 

Last modified onمنگل, 27 مئی 2025 23:25

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک