الثلاثاء، 29 ربيع الثاني 1447| 2025/10/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

مسلمانوں میں مایوسی اور حوصلہ شکنی پیدا کرنا

مسلمانوں میں مایوسی اور حوصلہ شکنی پیدا کرنا

بسم الله الرحمن الرحيم

 

تمام تر حمد و تعریفیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے ہیں

مسلمانوں میں مایوسی اور حوصلہ شکنی پیدا کرنا

تحریر : استاذ احمد الصوفی

https://www.alraiah.net/index.php/political-analysis/item/9836-creating-despair-and-discouragement-among-muslims

(ترجمہ)

تمام تر حمد و تعریفیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے ہیں، جس کے دین کے سوا کوئی عزت نہیں اور جس کی شریعت کے بغیر کوئی زندگی نہیں۔ اور درود و سلام ہو اُس نبی ﷺ پر جنہوں نے اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنے سے منع فرمایا۔

یہ سچ ہے جو کہا جاتا ہے کہ “ظالموں کو عوام کی بیداری سے سب سے زیادہ خوف ہوتا ہے”۔ اس کہاوت کے ساتھ  یہ اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے: “قوموں کی بیداری میں شعور اور پرامیدی کا بڑا حصہ ہوتا ہے”۔ اسی لیے کافر استعمار نے جلد ہی اس ناقابلِ تردید حقیقت کو سمجھ لیا اور ان دونوں عناصر، یعنی شعور اور امید کے خلاف بیک وقت حملہ شروع کر دیا۔

جہاں تک شعور کا تعلق ہے، اسے فکری یلغار، تعلیمی نصاب کی تبدیلی، ثقافتی پروگراموں، مشنری سرگرمیوں اور مغربی فکر وثقافت سے متاثرہ اور مرعوب دانشوروں کے گروہوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، اور یہ جنگیں آج تک جاری ہیں۔

جہاں تک عزم وحوصلہ توڑنے، شکست زدہ ذہنیت پیدا کرنے اور شباب (نوجوان مرد و خواتین) کے دلوں میں مایوسی کے بیج بونے کی جنگ کا تعلق ہے، اس کے لئے مغرب نے دور و نزدیک سے، دشمن اور دوست دونوں کو بھرتی کیا۔

مغرب کو اس وقت تک مسلمانوں کو غافل اور زیرِ اطاعت رکھنے کی کوئی امید نہیں جب تک وہ لوگوں میں یہ راسخ نہ کر دے کہ ہم فتح کے مستحق نہیں، اور مزاحمت، تبدیلی کی دعوت اور اس کے لئے کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے اور امت کو اس یقین تک پہنچانے کے لئے کثیر اور انتھک کوششیں درکار ہیں۔

مغرب کو معلوم ہے کہ قرآنِ مجید، سنتِ نبوی ﷺ اور ہماری شاندار تاریخ کے گراں قدر ہیروز کی داستانیں لوگوں میں امید جگانے اور مزاحمتی جذبہ بھڑکانے میں کس قدر اثر انگیز ہیں۔ اسی لیے اس نے ہر محاذ پر اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں میں شکست خوردگی اور دل شکستگی کی ثقافت پھیلانے کی مہم چلا رکھی ہے۔

لوگوں میں شکست زدہ ثقافتِ، مایوسی اور حوصلہ شکنی کو پروان چڑھانے میں تین کردار سب سے زیادہ خطرناک اور مؤثر ہیں:

1) مغربی ثقافت سے مرعوب اور متاثرہ مفکرین اور دانشور:

ان کرداروں میں وہ لوگ شامل ہیں جو سب سے اہم مقامات پر فائز ہو بیٹھے ہیں، جیسے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ، ثقافتی کلب اور دیگر کے عہدیداران۔ ان کا مشترک خیال یہ تھا کہ مسلم نسلوں کو یہ سبق پڑھایا جائے کہ ان کی امت ترقی، ثقافت اور جدیدیت میں پسماندہ ہے، اور مغرب ہر میدان میں آگے ہے، مغرب سے مقابلہ کرنا ناممکن ہے یا اس کے بغیر جینا بھی ممکن نہیں۔ ابھی ان کرداروں میں اُن حکمرانوں کا ذکر شامل نہیں ہے جو مغرب کے ہی مقرر کردہ ہیں، نفاق کے بیج بوتے ہیں اور ملک اور اس کے وسائل کو مغرب کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں، اور پھر اس شریعت کو معطل کر دیتے ہیں جو ترقی و پیش رفت کا ذریعہ ہے، علاوہ ازیں ان حکمرانوں کا کردار تو یہ ہے کہ وہ کرپشن کی حمایت کرتے ہیں اور اصلاح کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ چنانچہ یونیورسٹی کا طالب علم احساسِ کمتری لئے شکستگی اور مغرب اور مغرب کی ثقافت کے سامنے سرنگوں ہونے کے جذبات کے ساتھ اپنی امت کے بارے میں بوجھل دل کے ساتھ فارغ التحصیل ہوتا ہے۔

یوں اس لئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ امت کے شباب مایوس اور ناامید ہو جاتے ہیں۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ اگر شباب کو تبدیلی کے لئے عمل میں آنے کی دعوت دی جائے تو وہ اس دعوت کی مزاحمت کریں اور اسے رد کر دیں، اور امت کی پسماندگی کی درجنوں مثالیں پیش کر دیں، کیونکہ ان کی سب مثالیں وہی ہیں جو اسکولوں اور کالجوں میں انہیں رٹائی گئی تھیں۔

2- علماء اور داعیانِ دین کا کردار:

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ کرپٹ علماء نے مایوسی پھیلانے، لوگوں کی فطری نفسیہ کو بگاڑنے، اور انہیں یہ یقین دلانے میں سب سے گہرا اثر ڈالا کہ وہ فتح کے قطعاً مستحق نہیں ہیں۔ جب بھی کبھی کوئی مصیبت آتی ہے یا کسی دشمن نے جارحانہ حملہ کیا تو لوگوں نے اپنے شیوخ کی طرف رجوع کیا، مگر ہوتا یہ ہے کہ وہ گویا آگ سے بچنے کے لئے آگ ہی میں پناہ لے رہے ہوں۔ یوں ان کے سامنے شکست خوردہ شیوخ آ جاتے ہیں، ایسے علماء جو خود ذہنی طور پر مغلوب ہیں، جنہوں نے اسلام کو مسخ شدہ صورت میں لیا ہوا ہے، اور حقیقی نبوی ہدایت سے کوسوں دور ہیں۔ یہ علماء اپنی مایوسی کو امت کے شباب کے دلوں میں بھر دیتے ہیں، امت پر آن پڑنے والے ہر واقعے کا ذمہ دار انہی کو ٹھہرا دیتے ہیں، اور اس طرح کے کلمات کہتے رہتے ہیں:

             “تم میں کوئی خیر نہیں ہے، تم نصرۃ کے لائق ہی نہیں ہو، ہماری امت پسماندہ ہے اور اسلام کے تحت حکومت کے لئے تیار ہی نہیں ہے، تمام قومیں تم سے بہتر ہیں”۔

             “یہ نسل جس میں ہم موجود ہیں، فتح کی نسل ہی نہیں؛ ایک اور نسل کو تیار کرنا ہوگا، ابھی تبدیلی کے لئے کام نہ کرنا بہتر ہے”۔

             “تبدیلی ہمارا کام نہیں؛ ہمیں مہدی کا انتظار کرنا چاہیے”۔

             “جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے اپنے گناہوں کی وجہ سے ہے (جبکہ حکمرانوں کے گناہوں کا ذکر ہی نہیں کرتے)؛ ہم تو صرف دعا ہی کر سکتے ہیں…”

یوں ان علماء کا یہ تخریبی خطاب کوئی حل یا عملی منصوبہ پیش کئے بغیر ہی ختم ہو جاتا ہے، اور اس شرعی حکم کی وضاحت کئے بغیر بھی کہ ہم اٹھ کھڑے ہوں اور اس شر کو بدل ڈالیں کہ جس میں ہم جی رہے ہیں۔ اس طرح ان کے ایسے خطاب صرف امت کو کوسنے اور کوڑوں کی طرح مارنے کے مترادف ہیں، بالکل ویسے ہی جیسا کہ دشمن کر رہے ہیں۔

یوں قابض دشمن آزادانہ طور پر دندناتا پھرتا ہے، اور مسلمان اس یقین میں ڈوبے قتل عام پر قتل عام گنتے رہتے ہیں کہ وہ تو اپنے دفاع کی بھی طاقت نہیں رکھتے، چاہے حملہ آور کتنا ہی کمزور اور حقیر ہی کیوں نہ ہو۔

3- گمراہ کن میڈیا کا کردار:

کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ “ہماری آواز ہی ہماری سزا ہے”۔ جب میڈیا جو شیطان حکمرانوں کے ہاتھوں بکا ہوا ہو اور انہی کے کنٹرول میں ہو، اور یہ میڈیا دشمن کی طاقتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے لگے، اور امت کی قابلیتوں کو کم تر دکھانے لگے، جب میڈیا قومیت پسندی اور سرحدوں کی تقسیم کو اس قدر مضبوط کرے کہ وہ سرحدیں اپنے مومن بھائی کے خون سے زیادہ مقدس ٹھہر جائیں، جب وہ میڈیا ذہنی بیمار، بے حیا لوگوں، گناہ کا پرچار کرنے والوں یا حکومتی شیوخ کو مدعو کرے اور سیٹلائٹ چینلز پر گھنٹوں ان کے لئے وقف کر دے، جب ہماری اسکرینیں محض تفریح، لغویات اور فضولیات سے بھر جائیں تو پھر احساس کی بے حسی، جذبات کی سرد مہری، مایوسی اور بے بسی کے پھیلاؤ پر سوال نہ کرو۔

مسلمانوں میں پھیلی اس عام اور وبائی کیفیت کے سامنے ہم یہ کہتے ہیں: جان لو کہ ہم اس امت میں سے ہیں جس پر اللہ ﷻ نے ذلت اور ذلت پر راضی ہونے کو حرام کر دیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

“کمزور نہ پڑو، غم نہ کھاؤ، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو” (سورۃ آلِ عمران؛ 3:139)

ہم اس امت کی اولاد ہیں جس پر اللہ ﷻ ناراض ہوتا ہے اگر وہ یہ گمان کرے کہ وہ ﷻ اسے مدد (نصرۃ) نہیں دے گا:

﴿مَنْ كَانَ يَظُنُّ أَنْ لَنْ يَنْصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظ

“جو یہ گمان رکھتا ہے کہ اللہ اسے دنیا و آخرت میں مدد نہ دے گا، تو چاہئے کہ وہ آسمان تک رسّی لگائے، پھر اسے کاٹ دے، پھر دیکھے کیا اس کی یہ تدبیر اس کے غصّے کو دُور کرتی ہے؟” (سورۃ الحج؛ 22:15),

یعنی وہ اپنے آپ کو پھانسی دے دے اور مر جائے، کیونکہ یہی اس کے لئے بہتر ہے۔

اللہ ﷻ نے ہمیں مایوسی و نا امیدی سے منع فرمایا، ارشاد ہے:

 

﴿قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ

 

“اور تمہارے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے سوائے گمراہ لوگوں کے؟” [سورۃ الحجر؛ 15:56]

 

اور فرمایا:

 

﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَلِقَائِهِ أُولَئِكَ يَئِسُوا مِنْ رَحْمَتِي وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

“جو لوگ اللہ کی آیات اور اس سے ملاقات کا انکار کرتے ہیں، وہ میری رحمت سے ناامید ہوتے ہیں، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے” [سورۃ العنکبوت؛ 29:23]۔

 

بے شک، اللہ ﷻ نے مایوسی کو کفر سے جوڑا، فرمایا:

 

﴿إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا القَوْمُ الكَافِرُونَ

 

“بے شک اللہ کی رحمت (مدد) سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہیں” [سورۃ یوسف؛ 12:87]

امام الفخر الرازیؒ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں، (إن اليائس يتهم الله بالبخل، وبعدم العلم، وأنه ليس على كل شيء قدير والعياذ بالله) “مایوس شخص اللہ پر بخل اور لاعلمی کا الزام لگاتا ہے، اور یہ کہ اللہ ہر چیز پر قادر نہیں” نعوذ باللہ۔

اے بھائیو اور بہنو، اے شباب ( نوجوانو، بھائیو اور بہنو) !

مایوسی ایک چھوت کی مانند بے حس کر دینے والا نشہ ہے، جو تمہیں اور تمہارے گرد و پیش کو مفلوج کر دیتی ہے۔ جب ہماری امت اس گمان میں پڑ گئی کہ ان پر مسلط حکمران ہٹ نہیں پائیں گے، تو وہ ان کی آگ میں دہائیوں تک جلتی رہی۔ لیکن جب اس امت نے مایوسی کا پردہ ہٹایا، اللہ ﷻ پر توکل کیا، اور پھر اپنی قابلیت پر بھروسا کیا، تو اسی امت نے ایسے ایسے حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکا جن کے ہٹنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

قسم ہے اللہ ﷻ کی، ہمارے پاس تمکین (قدرت و غلبہ) کے تمام اوصاف موجود ہیں، اور ہم عظمت و وقار کے مقام کو دوبارہ حاصل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، اِن شاء اللہ۔ ہمارے پاس کامل عقیدہ، جامع عملی نمونہ، نوجوان ولولہ انگیز شباب، بے پناہ مال و اسباب، اسٹریٹجک محل وقوع، درخشاں ذہن، واضح راہ مستقیم، سیرتِ نبوی ﷺ، اور تابناک تاریخ موجود ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے پاس بشارتیں موجود ہیں جو کہ بس قریب ہی ہیں۔

ان تمام رکاوٹوں کے باوجود، اسی امت میں مخلص حاملین دعوت، حفاظ کرام اور ثابت قدم مجاہدین بھی موجود ہیں۔ بخدا، مغرب کانپ اٹھتا ہے جب وہ امت میں کسی سنجیدہ تحریک کو دیکھتا ہے، وہ خوف کے مارے سو نہیں سکتا کہ کہیں یہ امت پھر دوبارہ کسی خلیفۂ راشد کے پیچھے متحد نہ ہو جائے۔ اللہ کی قسم، مغرب اپنے ہی معاشروں میں اسلام قبول کرنے والوں کے سالانہ اعداد و شمار پڑھتے ہوئے لرز اٹھتا ہے، جو ان کے گلے سڑے بوسیدہ نظریات کے لئے خطرہ ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو خبردار کرتے ہیں کہ آئندہ چار دہائیوں میں اسلام دنیا کا غالب دین ہوگا۔ اور یہ صورتحال تو اس وقت ہے جبکہ امت بغیر کسی متحد ریاست، بغیر خلیفہ، اور بغیر بیعت کے ہے۔ تو ذرا سوچو… اگر یہ سب کچھ موجود ہو تو کیا صورتحال ہوگی؟

اے نوجوانو ! اے شباب!

اللہ ﷻ پر بھروسہ کرو، اپنی امت پر اعتماد رکھو، اپنے آپ پر اور اپنی تبدیلی کی صلاحیت پر یقین رکھو۔ یقین رکھو کہ اگر تم اللہ ﷻ کو مضبوطی سے تھام لو اور ان مایوسی پھیلانے والوں کو رد کر دو، تو تم ہی فتح کی نسل ہو اور کوئی نہیں۔

ہمارے رسول ﷺ کو پر امیدی پسند تھی، آپ ﷺ نے فرمایا:

 

«بَشِّرْ هَذِهِ الأُمَّةَ بِالتَّيْسِيرِ، وَالسَّنَاءِ وَالرِّفْعَةِ بِالدِّينِ، وَالتَّمْكِينِ فِي البِلَادِ، وَالنَّصْرِ»

 

“اس امت کو آسانی، عظمت، دین کے ذریعے برتری، عالم میں تمکین، اور نصرۃ کی خوشخبری دے دو”۔

اگر ہم اتنے ہی بے وقعت ہوتے، تو کافر ہم سے لڑنا کیوں نہ چھوڑتے؟ وہ کسی وہم سے نہیں لڑتے، بلکہ حقیقت سے لڑتے ہیں، اور وہ جانتے ہیں کہ اس امت کو صرف ایک خلیفۂ راشد کی کمی ہے جو اسے ایک صف میں متحد کر دے۔

لہٰذا اللہ ﷻ پر توکل کرو، اور اُن لوگوں کے ساتھ کام کرو جو اس دن کے لئے کام کر رہے ہیں، تاکہ اللہ ﷻ اپنی قوت و قدرت سے اس صبح صادق کو قریب کر دے۔

Last modified onمنگل, 21 اکتوبر 2025 05:39

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک