الأحد، 05 جمادى الأولى 1447| 2025/10/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

"گریٹر اسرائیل“ پر نیتن یاہو کے بیانات اور ان کے مضمرات

 

https://www.al-waie.org/archives/article/19972

(ترجمہ)

 

اوسلو معاہدے کی تردید اور نارملائزیشن کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ

 

یہودی وجود کے توسیع پسندانہ اہداف کو بے نقاب کرنے والے ایک چونکا دینے والے بیان میں، وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کھلے عام ”گریٹر اسرائیل“ کے تصور کی حمایت کا اعلان کیا۔ جب عبرانی چینل i24 نے ایک  انٹرویو میں اس سے پوچھا کہ کیا وہ ”گریٹر اسرائیل“ کے تصور پر یقین رکھتے ہیں، تو نیتن یاہو نے جواب دیا: ”یقیناً“، اور یہ بھی کہا کہ وہ اس تصور  سے ”بہت گہری وابستگی“ رکھتے ہیں۔

”گریٹر اسرائیل“ کا یہ تصور اپنی توسیع پسندانہ شکل میں، تاریخی فلسطین کے تمام مقبوضہ علاقوں اور پڑوسی عرب ممالک کے کچھ حصوں کے انضمام کا مطالبہ کرتا ہے۔ ”گریٹر اسرائیل“ کے منصوبہ میں ویسٹ بینک، غزہ پٹی، اور لبنان، شام، مصر اور اردن کے بعض حصوں کو اپنے کنٹرول میں لینا شامل ہے۔ ”گریٹر اسرائیل“ کا منصوبہ ایک قدیم استعماری خیال ہے جو ایک ایسے خطۂ زمین کے اس صہیونی خواب کی عکاسی کرتا ہے جو ”نیل سے فرات تک“ پھیلا ہوا ہو، اور جو تمام سابقہ معاہدوں اور امن منصوبوں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف تاریخی عزائم کو ترجیح دیتا ہے۔

 

یہ منصوبہ تمام سابقہ معاہدوں اور سمجھوتوں کو تاریخی خواہشات کی نذر کر دیتا ہے۔

 

نیتن یاہو کے بیانات نے ”زبانی مذمتوں“ کا ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے، حتیٰ کہ اُن دارالحکومتوں میں بھی جنہوں نے تعلقات کو معمول پر لانے اور قابض وجود کے ساتھ معاونت کرنے کی راہ اختیار کر لی تھی۔ اکتیس عرب اور مسلم ممالک نے، جن میں وہ حکومتیں بھی شامل ہیں جنہوں نے یہودی وجود کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کئے تھے، انہوں نے ان بیانات کو ”عالمی قانون کی سنگین اور خطرناک خلاف ورزی قرار دیا، اور عرب ممالک کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک براہِ راست خطرہ“ قرار دیا ہے۔

 

قاہرہ نے کہا کہ ”نیتن یاہو کے الفاظ خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلتے ہیں اور امن کے عمل کی عدم قبولیت کو ظاہر کرتے ہیں“۔ گویا غزہ کے بھونچال نے جیسے ان امیدوں کو پہلے ہی چکنا چور نہ کر دیا تھا، اور گویا خطہ تو جیسے اس قابض دشمن کے ہوتے ہوئے بھی مستحکم کھڑا تھا !

 

جہاں تک اردن کا تعلق ہے، جس نے 1994ء میں یہودی وجود کے ساتھ وادی عربہ معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس نے نیتن یاہو کی حکومت کے انتہاپسند عناصر کی طرف سے پھیلائے گئےعزائم کو ”دھوکہ“ کہتے ہوئے ان بیانات کو ”خطرناک اشتعال انگیزی اور ممالک کی خود مختاری کے لیے خطرہ“ قرار دیا۔ اردن نے خبردار کیا کہ ایسے بیانات غزہ اور مغربی کنارے میں جاری پرتشدد واقعات کے لئے جلتی پہ تیل کی مانند ہیں۔

 

یہ بہرحال واقعی حیرت کی بات ہے کہ حکومتوں کے ردعمل اتنے کمزور ہیں کہ محض مذمت سے ہی آگے نہیں بڑھ پاتےاور محدود رہتے ہیں، جبکہ ایک لاجسٹک پل تعمیر کیا جا رہا ہے جو کہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور اردن کو اسرائیل سے جوڑتا ہے۔ اس راہداری کے ذریعے یہودی وجود  کو بحری راستے کے مقابلے میں 80 فیصد سے زیادہ شپنگ لاگت بچانے میں مدد ملتی ہے، اور قابض وجود کو اس کی بقا کے وسائل فراہم ہوتے ہیں، حالانکہ وہ قابض وجود غزہ اور اس کے گرد و نواح کی مبارک سرزمین پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

 

حقیقت یہ ہے کہ یہودی ریاست کے وزیر خزانہ نے پیرس میں ایک انتہاپسند مجمع کے سامنے ”گریٹر اسرائیل“ کا ایک نقشہ دکھا کر یہ تماشہ کیا، اور اس نقشہ میں خود اردن بھی شامل تھا۔ عمان (اردن کے دارالحکومت) نے اسے ”دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے کی خلاف ورزی“ قرار دیا۔

 

اوسلو معاہدہ پر آخری ضرب؟ یا فلسطینی اتھارٹی کا خاتمہ؟

 

نیتن یاہو کے بیانات نئے حالات اور پرانے ”امن وامان کے عمل“ کے درمیان ایک طویل خلیج کو ظاہر کرتے ہیں، وہ امن معاہدہ کہ جس کو یہودی وجود کبھی کسی خاطر میں ہی نہیں لایا، سوائے اس کے کہ جب وہ معاہدہ اس کے اپنے مفاد میں ہو۔ یہ امر بھی باعثِ تعجب نہیں ہے کہ یہودی وجود ان اوسلو معاہدوں کو بھی ”آخری دھچکا“دے دے گا، جو 1990ء کی دہائی میں دو ریاستی حل تک پہنچنے کی امید کے ساتھ دستخط کیے گئے تھے۔

1993ء کے اوسلو معاہدوں کے بعد سے، یہودی قابض وجود اس حالت سے نکل آیا کہ وہ مسلسل تعاقب میں رہے، اور ایک محفوظ وجود میں بدل گیا جس کی حفاظت خود فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز کرنے لگیں۔ اوسلومعاہدے نے یہودی وجود کو باضابطہ طور پر تسلیم کروایا اور نارملائزیشن کا دروازہ کھول دیا، جبکہ فلسطینی اتھارٹی خود اس قابض وجود کا بااعتبار رکھوالا بن گئی۔ بجائے اس کے کہ اس قابض وجود سے لڑا جاتا، لیکن فلسطینی اتھارٹی نے تقریباً 80,000 اہلکاروں پر مشتمل سکیورٹی فورسز قائم کیں تاکہ مزاحمت کو دبایا جا سکے۔ سکیورٹی کوآرڈینیشن کے معاہدے کئی شقوں تک پھیل گئے۔

2000ء کے الاقصیٰ انتفادہ کے بعد سے فلسطینی اتھارٹی نے بڑی جھڑپوں کو روکنے کے لیے ہی کام کیا ہے، احتجاجات کو کچلا اور مسلح گروہوں کا مقابلہ کیا ہے۔ 2007ء کی تقسیم کے بعد، ویسٹ بینک ایک بڑی جیل کی مانند ہو گیا، جہاں حماس اور اسلامی جہاد کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر  کارروائیاں ہوتی رہیں، ہزاروں نوجوان گرفتار کیے گئے، اور ساتھ ہی صہیونی فوج کے حملے بھی جاری رہے۔

2014ء میں، غزہ کی جنگ کے دوران، فلسطینی اتھارٹی نے ویسٹ بنک میں کسی بھی بغاوت کو روکنے کے لیے کارروائیاں کیں، حتیٰ کہ مزاحمت کی حمایت کرنے والے مظاہرین پر بھی حملے کیے۔

2021ء اور 2022ء میں بھی فلسطینی اتھارٹی نے الاقصیٰ احتجاجات کے دوران یہودی وجود کے ساتھ سکیورٹی تعاون جاری رکھا۔ جب یہودی فوجی کیمپوں پر حملے کر کے مزاحمت کاروں کو قتل کرتے تو فلسطینی اتھارٹی رات کے اندھیرے میں باقی بچ جانے والوں کا پیچھا کرتی تھی۔ حال ہی میں، 2023ء میں جنین میں عینی شاہدین نے بتایا کہ جب یہودی فوج نے کیمپ پر حملہ کیا تو فلسطینی اتھارٹی کی فورسز پیچھے ہٹ گئیں، لیکن بعد میں غصے میں بھرے احتجاجی مظاہرین کو دبانے کے لیے واپس لوٹ آئیں۔

 

یوں اس طرح فلسطینی اتھارٹی ایک ایسا آلۂ کار بن چکی ہے جو اس قبضے کو قائم رکھے ہوئے ہے، امت کے حقوق سے غداری کرتی ہے، اور دشمن کی حفاظت کرتی ہے، جبکہ اس کی اپنی قوم مصیبتیں جھیل رہی ہے۔ یہ عین اسی طرح کی غداری ہے جو عرب ممالک نے یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کر کے کی ہے۔

 

 

یہودی وجود کے ہاتھوں اوسلو معاہدہ کی بربادی

 

دائیں بازو کی صہیونی حکومتیں قابض علاقوں میں توسیع اور ایک ”نئی حقیقت“ مسلط کر کےبتدریج اوسلو معاہدوں کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں، جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے ادارے کو ایک سکیورٹی پارٹنر کے طور پر برقرار رکھا گیا ہے جو بجائے اس کے تنازعہ کو حل کرے بلکہ وہ اس”تنازعہ کو برقرار رکھنے“ کی پالیسی پر کام کرتا ہے۔ اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو کی زیر قیادت، صہیونی تاریخ کی سب سے انتہاپسند حکومت نے غزہ پر جنگ میں اوسلو معاہدے کے تمام بندوبست کو یکسر پلٹ دینے کا موقع ڈھونڈ لیا ہے۔

 

اسٹریٹیجک مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ نیتن یاہو کی موجودہ حکومت 7 اکتوبر 2023ء کے بعد کی صورتحال کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کر رہی ہے تاکہ اس ایجنڈے کو نافذ کیا جائے جس کا اعلان اس  کے قیام سے ہی کر دیا گیا تھا، یعنی : اوسلو معاہدہ کی تشکیل کردہ صورتحال سے ہاتھ جھاڑ لینا، فلسطینی اتھارٹی کو مالی اور سیاسی طور پر کمزور کرنے کی کوششوں کو تیز کرنا، قابض علاقوں کی توسیع میں اضافہ کرنا، اور ویسٹ بینک کے علاقوں کو عملی طور پر ضم کرنا۔

 

اور واقعی نیتن یاہو کے بیانات کے صرف چند دن بعد ہی، اس کے وزیر خزانہ بیزلیل سموطریچ نے مقبوضہ ویسٹ بینک میں ہزاروں نئے یونٹس کی منظوری کا اعلان کر دیا، یوں اس اقدام سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہودی وجود کا یہ قدم ”ایک فلسطینی ریاست کے خیال کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیتا ہے“۔ اسی طرح، کنیسٹ نے اس سے قبل ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کیا گیا تھا، جس میں 68 کے خلاف صرف 9 ووٹ پڑے تھے۔ اگرچہ یہ ایک علامتی اقدام تھا، لیکن یہ اوسلو معاہدوں سے سرکاری انحراف کو ظاہر کرتا ہے۔

 

صہیونی قبضے نے فلسطینی اتھارٹی کو گھیرنے اور تنہا کرنے کی کوششوں میں بھی شدت پیدا کر دی ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت نے فلسطینی اتھارٹی  کے ٹیکس محصولات سے بڑی رقم کاٹ لی یا روک لی، اور ایسے قوانین بنانے پر زور دیا جن سے شہداء کے خاندانوں کی مدد کرنے پر فلسطینی اتھارٹی کو مالی جرمانے کے مقدمات  کا سامنا کرنا پڑے، اور ہزاروں فلسطینی مزدوروں کو روزگار کے لیے یہودی وجود میں داخل ہونے سے بھی روک دیا۔

 

یہودی وجود کی جارحیت بڑھ کر یہاں تک جا پہنچی کہ اوسلو معاہدے کے مطابق ”زون اے“ قرار دیے گئے علاقوں میں بار ہا فوجی دراندازی کی گئی ہے، اور یہاں تک کہ اس نے ”زون-بی“ کے کچھ علاقوں میں فلسطینی اتھارٹی سے سکیورٹی اختیارات واپس لینے کا اعلان بھی کر دیا ہے اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کہ وہاں یہودی وجود کے براہِ راست کنٹرول میں ”قدرتی ذخائر“ قائم کیے جائیں گے۔ یہ اقدام دراصل اوسلو معاہدے کے تحت بنائے گئے انتظامی تقسیم کے یکطرفہ خاتمے کے مترادف ہے۔

 

اوسلو معاہدے (1993-1995ء) کے بعد سے فلسطینی اتھارٹی کے بجٹ کا تقریباً 75% حصہ اُن ٹیکس محصولات پر منحصر رہا ہے جو یہودی ریاست اس کی طرف سے جمع کرتی ہے۔ صہیونی وجود ہی اس بات پر مکمل اختیار رکھتا ہے کہ یا تو وہ یہ فنڈز منتقل کرے یا انہیں  روک لے۔ 2019ء سے 2024ء کے درمیان، یہودی وجود نے تقریباً 3.54 بلین شیکل (تقریباً ایک ارب ڈالر)، یعنی 2023ء میں فلسطینی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا تقریباً 5فی صد صرف اس بہانے کاٹ لیا تھا کہ یہ رقوم فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے شہداء اور اسیران کے خاندانوں کو دی جا رہی ہیں۔ یہ کٹوتیاں اکتوبر 2023ء کے بعد سے مزید بڑھ گئی ہیں، ہر ماہ 275 ملین شیکل تک پہنچ گئیں، جو غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے ملازمین کی پوری تنخواہوں کے برابر ہیں۔

 

اسی دوران، یہودی وجود نے اکتوبر سے دسمبر 2023ءکے درمیان 143,000 تک فلسطینی مزدوروں کو اسرائیل کے اندر اپنے روزگار کے لئے پہنچنے سے روک دیا، جس نے ان کے پورے خاندانوں کو شدید متاثر کیا اور معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔

 

اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی  نے بھی بغاوتوں کے خلاف اپنی کریک ڈاؤن کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔

 

جنین پناہ گزین کیمپ اور یروشلم میں، فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز نے یا تو مجاہدین کو قید کر دیا ہے یا انہیں اسرائیلی قبضے کے حوالے کر دیا ہے۔ صرف ویسٹ بینک میں ہی سکیورٹی ناکے اور رکاوٹیں بڑھ کر تقریباً 900 تک پہنچ گئی ہیں، جس نے روزمرہ نقل و حمل کو ایک مسلسل جدوجہد بنا دیا ہے۔ یوں اس طرح، فلسطینی اتھارٹی ایک ایسے آلے میں بدل گئی ہے جو صہیونی قبضے کی خدمت کرتا ہے، یہ اتھارٹی اپنی سکیورٹی فورسز کو استعمال کرتے ہوئے صہیونی مفادات کا تحفظ کرتی ہے، اپنے ہی لوگوں سے غداری کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرتی ہے، یہود سے سکیورٹی تعاون کرتی ہے، جبکہ اس کے اپنے فنڈز لوٹے جا رہے ہیں، اور اس کے اپنے عوام کو بھوک اور محاصرے کے ذریعے دم توڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اسی دوران، غزہ اور ویسٹ بینک کے نوجوان بھوک، گھیراؤ اور مسلسل خونریزی کے ہاتھوں اس سرزمین پر شہید کیے جا رہے ہیں،جو درد اور اپنوں کی غداری کا رونا رو رہی ہے۔

 

فلسطینی اتھارٹی کا مستقبل داؤ پر ہے

 

یہ حالات فلسطینی اتھارٹی  کے مستقبل کو ایک ایسے نازک اور فیصلہ کن موڑ پر لا کھڑا کرتے ہیں، کہ اس جیسے حالات اس کی تشکیل کے بعد کبھی نہیں دیکھے گئے۔ فلسطینی اتھارٹی ایک نازک  اور پابند ڈھانچے میں بدل چکی ہے، جو روز بروز اپنا کردار کھو رہی ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ نے بھی اس کے وفد کو اپنے ملک میں داخلے یا اقوامِ متحدہ کی میٹنگوں میں شرکت کے لیے ویزا دینے سے روک دیا ہے۔

 

فلسطینی اتھارٹی کی قیادت نے ”گریٹر اسرائیل“سے متعلق نیتن یاہو کے بیانات کو ”فلسطینی عوام کے جائز حقوق سے کھلا تغافل، اور خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرناک اشتعال انگیزی“قرار دیا ہے۔ تاہم، حقیقتاً یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ یہ خطے کی سلامتی یا استحکام کے لیے خطرہ کی بجائے اُس صورتحال کے تسلسل کے لیے خطرہ ہے جس نے کرپشن کو فروغ دیا، اور قابض وجود  کے ساتھ گھٹیا تعاون کو ممکن بنایا۔ خطہ تو کبھی بھی محفوظ یا مستحکم نہیں رہا، جب سے قابض وجود قائم ہوا ہے۔ اس کے باوجود، فلسطینی اتھارٹی اپنے آپ کو صرف زبانی مذمتوں تک محدود پاتی ہے، جبکہ قابض وجود کا ایجنڈا اس کی حقیقی سیاسی اہمیت کو بھی چھینتا جا رہا ہے۔

 

دوسری جانب، یہودی وجود کے اپنے اندر موجود تحقیقی مراکز خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فلسطینی اتھارٹی  کا خاتمہ ہو جائے، چاہے وہ داخلی دھچکا ہو یا صہیونی سرپرستی میں مکمل بغاوت کے ذریعے، تو اس سے  ایک خطرناک خلاء پیدا ہو جائے گا، جس کے نتائج سب کے لئے شدید ہوں گے، یہاں تک کہ خود یہودی وجود کے لئےبھی۔ آخر ان کے لئے ایسا کیوں ہو گا؟ کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کا کردار، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ صہیونی فوج سے بھی زیادہ بڑھ کر قابض وجود کی حفاظت کرنا رہا ہے! اگر فلسطینی اتھارٹی نہ رہے، تو ایک عوامی انقلاب پھوٹ سکتا ہے، کیونکہ فلسطینی عوام مذاکراتی عمل سے مکمل طور پر مایوس ہو جائیں گے۔ مزید یہ کہ فلسطینی اتھارٹی کے لاکھوں مسلح سکیورٹی اہلکار جن کی جب تنخواہیں بند ہو جائیں گی تو وہ یہودی وجود کے ساتھ سکیورٹی تعاون کرنے کے بجائے مجبوراً مزاحمت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کا خاتمہ ”معاہدوں کے عہد“ کے اختتام اور ”امن معاہدہ“کے فلسفے کی ناکامی کا بلند اعتراف ہوگا جو کہ عرب ریاستوں اور یہودی وجود کے درمیان نارملائزیشن کے عمل کو بھی مؤخر کر سکتا ہے۔

 

یہودی وجود کے لیے اس کا مطلب ہوگا کہ اسے ویسٹ بینک اور غزہ میں لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیوں کا براہِ راست انتظام سنبھالنا پڑے گا جو کہ اس کے لئے انتہائی بھاری مالی اور سکیورٹی بوجھ ثابت ہوگا۔ باالفاظِ دیگر، نیتن یاہو کی حکومت کا ”گریٹر اسرائیل“کے خواب کی طرف بڑھنا، چاہے فلسطینی اتھارٹی کو بے دخل کر کے ہو یا اسے گرا کر، خطے میں ایک خطرناک سکیورٹی اور علاقائی انتشار کے دروازے کھول سکتا ہے، جس کے تکلیف دہ نتائج ہو سکتے ہیں۔ لیکن نیتن یاہو جان بوجھ کر اس کو نظرانداز کر رہا ہے، تاکہ انتہاپسند آبادکاروں کو خوش کرے اور اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنائے۔

 

اوسلو معاہدہ کے بعد سے ویسٹ بینک میں ہر چھٹے فلسطینی نے اس فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز میں کام کیا ہے، جو تعلیم اور صحت کے مجموعی اخراجات سے زیادہ سکیورٹی پر خرچ کرتی ہے۔ اس کا سالانہ سکیورٹی بجٹ ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، جو اس کے کل بجٹ کا 28 فیصد بنتا ہے۔ دسمبر 2024ء میں جنین میں، فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے مجاہدین کے خلاف کی جانے والی مہم کے دوران شدید جھڑپیں ہوئیں، جن کے نتیجے میں جنین کے مجاہدین شہید ہوئے۔ اس سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہوئی کہ سکیورٹی قیادت کمزور ہے اور عوامی حمایت سے محروم ہے، اور فلسطینی اتھارٹی پر یہ الزام بڑھ گیا کہ وہ فلسطینی عوام کے بجائے یہودی وجود کے ”تحفظ و سکیورٹی“ کا آلہ بن چکی ہے۔

 

فلسطینی اتھارٹی کی اپنے ہی عوام کے خلاف بڑھتی ہوئی جبر کی کارروائیاں کسی بھی طرح کم خطرناک نہیں۔ صرف 2015ء میں، 1,274 سے زائد جبری گرفتاریاں اور 1,089 طلبی نوٹس جاری کیے گئے، جنہیں سکیورٹی کے بہانے کے تحت کیا گیا تھا مگر ان کے پیچھے کوئی حقیقی الزامات موجود نہ تھے۔ ان گرفتار شدگان میں طلبہ، انسانی حقوق کے کارکن اور سیاسی مخالفین شامل تھے۔ رپورٹ شدہ واقعات میں فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں میں تشدد کے کیسز بھی شامل تھے۔ رائے عامہ کے ادارے، جیسے (Jerusalem Center for Political Studies  PCPSR) نے نشاندہی کی کہ ویسٹ بینک کے 79 فیصد فلسطینی یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کے اداروں میں کرپشن پائی جاتی ہے، جس سے عوامی اعتماد میں شدید کمی ظاہر ہوتی ہے۔ اسی باعث فلسطینی اتھارٹی کو ایک قومی حقوق کے محافظ کے بجائے ”کرپٹ دولت کے تحفظ گاہ“کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔

 

ایک ادارے Arab Barometer  کے 2021–2022 کے سروے کے مطابق، 85 فیصد فلسطینیوں نے تصدیق کی کہ فلسطینی اتھارٹی میں ”بڑے پیمانے پر یا معتدل سطح“پر کرپشن موجود ہے، جبکہ 62فیصد سے زائد شہریوں نے فلسطینی اتھارٹی کو ”عوام پر بوجھ“قرار دیا۔ یہ عوامی غصہ اس تناظر میں بالکل فطری ہے جہاں فلسطینی اتھارٹی کے ادارے بکھر رہے ہیں اور کرپشن جڑیں پکڑ چکی ہے۔ اوسلو معاہدہ کے بعد سے فلسطینی اتھارٹی نے اپنے تمام تر وسائل صرف یہودی وجود کی حفاظت، اندرونی مخالفت کو دبانے، اور آوازوں کو خاموش کرنے پر لگا دیئے، یہاں تک کہ اس کی سکیورٹی ایجنسیاں اپنی قوم کے تحفظ کے بجائے اس کی مزاحمت کو کچلنے میں مصروف ہو گئیں۔

 

دوسری جانب، یہودی وجود نے فلسطینی اتھارٹی کو اپنے وجود کے لئے پل بنا کر اس سے بے حد فائدہ اٹھایا ہے، اسے اپنی ریاست کے لئےپل بنا کر۔ فلسطینی اتھارٹی نے دو متضاد مگر نہایت مہلک کردار ادا کئے جو قابض وجود کے لیے بہت مفید رہے : ایک طرف تو یہ اتھارٹی قابض وجود کی جانب سے اس کےخلاف ہونے والی مزاحمت کو کچلتی رہی ہے ، دوسری طرف قابض وجود کو تحفظ فراہم کرتی رہی ہے اور اپنے ہی عوام کو دباتی رہی ہے، کرپشن پر پردے ڈالتی ہے، جبکہ صہیونی وجود نے مزید علاقوں کو ہڑپ کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔اس زہریلی مثلث میں فلسطینی اتھارٹی عملاً قابض وجود کا آلۂ کار بن چکی ہے، یعنی ایک ایسی پیشگی سکیورٹی باڑ جو وہ سب کچھ کرتی ہے جو دوسرے حالات میں صہیونی فوج کو خود کرنا پڑتا۔ یہ اتھارٹی مزاحمت کاروں کا پیچھا کرتی ہے، انتفادہ کے سرچشمے کاٹتی ہے اور مخالفین کا شکار کرتی ہے، اس اتھارٹی کے ادارے قابض وجود کے ہاتھوں میں انتظامی و سکیورٹی اوزار بن چکے ہیں، جو اُس کے علاقوں کی حفاظت کرتے ہیں، اور اس کی توسیع کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرتے ہیں، جبکہ اپنی ہی قوم کو بے روزگاری، بھوک، افلاس اور گولیوں کے سامنے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔

”گریٹر اسرائیل“کا منصوبہ صرف فلسطین کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لیتا بلکہ یہ منصوبہ پڑوسی ممالک جیسے اردن اور مصر کے وجود کے لیے بھی براہِ راست خطرہ ہے۔ یہ منصوبہ وادی عربہ (1994) اور کیمپ ڈیوڈ (1979) جیسے ان امن معاہدوں کی بھی بیخ کنی کرتا ہے، جنہوں نے بین الاقوامی سرحدوں کو تسلیم کر رکھا تھا۔ جب نیتن یاہو اردن اور سینا کے حصوں کو ضم کرنے کی بات کرتا ہے، تو وہ دراصل ان معاہدوں کو کالعدم قرار دینے کا عندیہ دیتا ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت کے بعض انتہاپسند ارکان نے تو فلسطینیوں کے لیے اردن میں ”متبادل وطن“ کا خیال بھی پیش کر دیا ہے، جس کے تحت یہ اشارہ دیا گیا کہ مشرقی ویسٹ بینک کو فلسطینی مسئلے کے آخری حل کے طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔

 

یہ معاملہ اردن کے لیے نہایت تشویشناک ہے، جو ویسٹ بینک کو اپنی سکیورٹی کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک محاذ کے طور پر سمجھتا ہے۔ مگر اردن کی طرف سے ردِعمل نہایت کمزور اور کھوکھلے بیانات تک ہی محدود رہا بجائے اس کے کہ کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے جاتے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے وجود کو لاحق اس خطرے کے پیشِ نظر، اردن کو چاہیے تھا کہ جرأت مندانہ اقدامات کرے، جیسا کہ :عمان سے صہیونی سفیر کو نکال باہر کرتا، اپنے سفیر کو تل ابیب سے واپس بلا لیتا، یہودی وجود کے ساتھ سفارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع کر دیتا، وادی عربہ معاہدہ اور اس کی سیاسی، سکیورٹی و معاشی شقوں کو معطل کرتا، اور سب سے اہم، اردن کو چاہئے تھا کہ اس سکیورٹی تعاون کو ختم کر دیتا جس نے برسوں سے قابض وجود کو سرحدی تحفظ فراہم کر رکھا ہے، نیز اُس گیس معاہدے کو بھی منسوخ کرتا جو اردنی عوام پر معاشی بوجھ بنا ہوا ہے۔

 

اردن کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے زیرِانتظام، مسجدِ الاقصیٰ میں صہیونی دراندازیوں کو روکنے کے لیے زیادہ مضبوط سیاسی عزم دکھاتا۔ یہ زیادہ مناسب ہوتا کہ اردنی فوج عملی اقدام کرتی، تاکہ یہ واضح ہو جاتا کہ ملک یہودی وجود کے لیے کوئی آسان ہدف نہیں ہے، خاص طور پر 7 اکتوبر کے بعد، جب حماس اور اسلامی جہاد نے غزہ میں صہیونی فوج کو ذلت آمیز شکست دی۔ اردنی فوج، جس نے 1968ء کے معرکۂ الکرامۃ میں یہودی وجود کو شکست دی تھی اور اس سے پہلے مشرقی یروشلم کے سقوط کو روکا تھا، اسے تو یہ کرنا چاہیے تھا کہ غزہ کے ساتھ یکجہتی میں صہیونی وجود کے خلاف ایک محاذ کھول دیتی۔

 

اردنی حکومت کو یہ بھی کرنا چاہیے تھا کہ وہ اپنے عوام کو فلسطین کی حمایت میں آزادانہ احتجاج کی اجازت دیتی، تاکہ سڑکوں پر قوت کا اظہار ہو اور یہودی وجود اور اس کے امریکی آقاؤں پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ ان عوامی تحریکوں کو دبانے کے بجائے، اردن انہیں ایک مؤثر مزاحمتی قوت کے ذرائع میں تبدیل کر سکتا تھا۔ ”گریٹر اسرائیل“کے تصور کے جواب میں اردنی حکومت سے کم از کم یہ توقع تھی کہ وہ قومی وقار اور خودمختاری کا مضبوط مؤقف ہی اختیار کر لیتی، نہ کہ محض خالی خولی سفارتی بیانات پر اکتفا کرتی۔

 

اس تناظر میں، اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن الصفدي کا بیان ایک ”سرد سفارتی ردعمل“ کا عکاس تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ صہیونی اقدامات نہ تو اردن اور نہ ہی عرب دنیا کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، اور نہ ہی فلسطینی حقوق پر اثر انداز ہوں گے۔ ان کا یہ بیان ایک معمول کی پریس ریلیز محسوس ہوا، نہ کہ ایک سنجیدہ ردعمل جو سامنے آن موجود خطرے کی صورت میں ہو۔

 

یہودی وجود کے ساتھ امن معاہدہ کرنے والا پہلا عرب ملک ہونے کے ناطے، مصر بھی ایک بڑے تزویراتی مخمصہ کا شکار ہے۔ جب نیتن یاہو صحرائے سینا کے بارے میں اپنے عزائم کا عندیہ ظاہر کرتا ہے یا دانستہ طور پر مصر کے علاقائی کردار کو نظرانداز کرتا ہے، تو وہ درحقیقت مصر اور یہودی وجود کے مابین دہائیوں پر محیط تعاون کو یکسر مسترد کر رہا ہوتا ہے۔ مصری حکومت کا ردعمل بھی اردن جیسا ہی بودا، کمزور اور گنگ ہے، محض مذمتی بیانات، مذاکرات کی اپیلیں، اور پرانے ”امن معاہدہ“ کی دہائی، حالانکہ دہائیوں کے ناکام مذاکرات صہیونی نیتوں کو بے نقاب کر چکے ہیں۔ نیتن یاہو کے حالیہ اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہودی وجود نہ تو معاہدوں کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی کسی وعدوں کو خاطر میں لاتا ہے، بلکہ اس کا ہدف دریائے فرات سے دریائے نیل تک پھیلاؤ ہے۔

 

مصر کو اصل میں یہ خوف لاحق ہے کہ صہیونی انتہا پسندی کے باعث کہیں یہ خطہ ایک بار پھر بھڑکتی ہوئی جنگوں کی طرف نہ لوٹ جائے، جو خود مصر کے اندرونی نظم و نسق اور اس کی عوام پر مصر کی ریاستی گرفت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ مصری عوام کے غصے میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر اس تاثر کی وجہ سے کہ مصر اور یہودی وجود کے درمیان غزہ کے محاصرے میں خفیہ تعاون پایا جاتا ہے۔ غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران، قاہرہ کو شدید عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اس پر الزام لگا کہ وہ یہودی وجود کے ساتھ مل کر غزہ کا محاصرہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ تاثر پایا گیا کہ مصر نے امریکہ اور یہودی وجود کے ساتھ اپنی ترجیحات کے باعث، غزہ میں اُن کے استعماری منصوبوں کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کر لی ہے۔مصر کی حمایت کے باوجود، یہودی وجود نے غزہ پر حملے جاری رکھے اور مصر کی کوششوں کا قطعی کوئی لحاظ نہ کیا۔

پھر نیتن یاہو نے صحرائے سیناء کے معاملے پر مصر کی خود مختاری کو خطرے میں ڈال کر اور اس کے علاقائی کردار کو چیلنج کرتے ہوئےاپنے توسیع پسندانہ عزائم کا کھلم کھلا اعلان کیا۔ یہ اس تمام تر معاونت کی کھلی توہین ہے جو مصر عرصۂ دراز سے یہودی وجود کو فراہم کرتا چلا آیا ہے۔ مثال کے طور پر، مصر نے یہودی وجود کو کھلی چھوٹ دی کہ وہ غزہ اور مصر کے درمیان سرحدی علاقہ، فلاڈیلفی کوریڈورپر بغیر کسی مزاحمت کے اپنا مؤقف مسلط کر لے۔ مئی 2024ء میں صیہونی فوج نے فلاڈیلفی کوریڈور پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کر دیا، جو واضح طور پر کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی خلاف ورزی تھی، لیکن مصر کسی حقیقی عملی کارروائی کے بغیر صرف ایک کمزور سا احتجاج ہی کر پایا۔

 

مصر اور غزہ کے درمیان رفح سرحدی گزرگاہ گھٹن کا ایک ذریعہ بن چکی ہے، کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر صرف چند ٹرکوں کو گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے، جبکہ سینکڑوں ٹرک وہاں سڑنے کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ مصر اکثر کھوکھلے جواز تراش کر رفح سرحدی گزرگاہ کو کئی کئی دنوں یا حتیٰ کہ ہفتوں تک بند رکھتا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں بیمار اور بھوکے لوگ پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ جنگ بندی کے مذاکرات میں، مصر نے اس معاہدے میں ہیرا پھیری کی جس پر یہودی وجود اتفاق کر چکا تھا، شرائط میں تبدیلی کر کے اور انہیں حماس کو بھیج کر، جس کے باعث معاہدہ ناکام ہوگیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مصر نے کیسے کیسے حربوں سے حل کو روکنے اور صیہونی مقاصد کو آسان بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔

 

مختصر یہ کہ، مصر نے وہاں کے عوام کا محافظ بننے کے بجائے غزہ کی ناکہ بندی میں شریک بننے کا انتخاب کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں مصر کی پالیسیاں فلسطینی عوام اور پوری مسلم دنیا کے لیے ایک بوجھ بن گئی ہیں، جبکہ اسرائیل کو اس سے اسٹریٹجک فائدہ پہنچا ہے۔

 

اور جہاں تک الشام کا تعلق ہے تو شام کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں، اگرچہ وہ وقتی طور پر یہودی وجود کے ساتھ باضابطہ تعلقات معمول پر لانے کے دائرے سے باہر ہے۔ ”گریٹر اسرائیل“ کا منصوبہ، اپنی مختلف صورتوں کے لحاظ سے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں اور جنوبی شام کے کچھ حصوں کو اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا حصہ بناتا ہے۔ بہرحال اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ شامی حکومت دوہری کمزوری کی واضح مثال پیش کرتی ہے، کیونکہ جب ایک طرف صیہونی فضائی حملے مسلسل شامی دارالحکومت اور اس کے ہوائی اڈوں کو نشانہ بنا رہےہیں، اور یہودی وجود مشرقی شام میں علیحدگی پسند قوتوں کی مدد کر رہاہے، تو اس کے باوجود بھی شامی حکومت کو امریکی ہدایات پر اپنے دشمن کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنے میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔ نہ تو کوئی جوابی میزائل فائر ہوتے ہیں، نہ اسرائیلی دراندازیوں کو روکنے کے لیے کوئی اقدام کیا جاتا ہے، بس چپ سادھ لی گئی ہے۔ شام کی طرف سے یہی خاموشی نیتن یاہو کو وہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ غزہ میں ناکام ہونے کےبعد شام میں کوئی کامیابی حاصل کرے تاکہ خود کو طاقتور ثابت کر سکے۔ یہ شامی حکومت طوفان کے سامنے سر جھکانے کی عادی ہو چکی ہے، یہاں تک کہ اس کا جھکا ہوا سر دشمن کے سامنے ذلت آمیز اطاعت میں بدل گیا ہے۔ اس حکومت کا واحد عذر یہ ہے کہ ”طاقت کا توازن اجازت نہیں دیتا“، مگر اسی عذر نے قابض وجود کو  آسانی فراہم کر رکھی ہے اور یہودی وجود کو شام کی فضاؤں اور زمین پر مکمل آزادانہ طور پر دندنانے کی جرأت دے دی ہے۔ اس شامی حکومت کا رویہ یہودی وجود کے حوالے سے صرف 1974ء کے گولان علیحدگی معاہدے کی بحالی اور سرحدوں پر استحکام تک ہی محدود ہے۔

 

تعلقات نارملائز کرنے والی حکومتیں : کھوکھلی مذمتیں  اور مسلسل جاری چاکری

 

یہ تمام واقعات قابض صیہونی حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں کے مابین بگڑتے ہوئے تعلقات کو ظاہر کرتے ہیں، وہ اتحادی جنہوں نے یا تو یہودی وجود کے ساتھ تعلقات نارملائز کئے یا سکیورٹی معاملات میں اس کے ساتھ تعاون جاری رکھا۔ یہ بات تو بہرحال واضح ہے کہ یہودی وجود ان خدمات اور ضمانتوں کی قطعی کوئی قدر نہیں کرتا جو ان حکومتوں نے برسوں سے اسے فراہم کئے رکھی ہیں۔ اس کے برعکس، نیتن یاہو اور اس کے حواری ان حکمرانوں کی اطاعت کو ایک ”گرین سگنل“ کے طور پر لیتے ہیں تاکہ اپنے جارحانہ منصوبوں کو مزید آگے بڑھایا جا سکے۔ اور بھلا ایسا کیوں نہ ہو، جب ہم نے غزہ کی جنگ (2023–2025ء) کے دوران دیکھا کہ کچھ عرب حکومتوں نے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر یہودی وجود کی حمایت جاری رکھی۔ بعض حکومتوں نے اپنے عوام کی غصے بھری آوازوں کو دبا دیا، اپنی افواج کو حرکت میں آنے سے روک دیا، اور غزہ کی حمایت میں کسی حقیقی اقدام کو روکے رکھا۔ حتیٰ کہ فلسطینی اتھارٹی نے بھی ویسٹ بینک میں قابض اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی کے حوالے سے تعاون جاری رکھا، اور یکجہتی تحریکوں کو دبا دیا، جبکہ صیہونی فوج روزانہ کی بنیاد پر غزہ میں قتلِ عام کر رہی تھی۔ ان حکومتوں کا خیال تھا کہ ان کی خدمات انہیں تل ابیب یا واشنگٹن کے لیڈران کی نظروں میں مقام دلائیں گی، یا ان کے چند گنے چنے مفادات کو تحفظ دے دیں گی۔ تاہم، نیتن یاہو کا جواب بہت جلد ہی آ گیا: یعنی کسی کے بڑھائے ہوئے ہاتھ کی پرواہ کیے بغیر وہ اپنے استعماری منصوبے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 

غداری کا منظر ایک بار پھر دہرایا جا رہا ہے : برسوں پہلے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور بحرین نے فلسطینی مقصد سے غداری کے بدلے یہودی وجود کے ساتھ مکمل تعلقات نارملائز کرنے کا سودا کیا تھا، اس امید پر کہ وہ یہودی وجود کے مزید قبضہ کرنے کی خواہش کو روک سکیں گے۔ تاہم، وہ شرائط محض دھوئیں کا مرغولہ ثابت ہوئیں، کیونکہ نیتن یاہو کی حکومت نے بے رحمی سے اپنے قبضہ کو وسعت دینا جاری رکھا اور غیر قانونی چوکیوں کو قانونی حیثیت دی۔ درحقیقت، یہودی وجود نے 2023ء میں ہی تقریباً ویسٹ بینک کے بڑے حصوں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا، جسے صرف ابراہام معاہدوں کو محفوظ کرنے کے لیے عارضی طور پر مؤخر کیا گیا۔ یہودی وجود نے کبھی بھی ان معاہدوں کو کوئی اہمیت نہیں دی، سوائے اس کے کہ جب وہ اس کے اپنے فوری مفادات کے حق میں ہوں۔ صیہونی وزیر بیزالیل سموٹریچ نے تو کھلے عام اعلان کر دیا کہ “فلسطینی قوم” جیسی کوئی شے ہے ہی نہیں، اور یہ بات اس نے اس وقت کہی جب وہ ایک ایسے نقشے کے سامنے بیٹھا تھا جس میں اردن اور فلسطین دونوں کو ”گریٹر اسرائیل“ کا حصہ دکھایا گیا تھا، اور یہ بات یہودی وجود کے نارملائزڈ اتحادیوں کے لیے ایک اشتعال انگیز توہین تھی، حتیٰ کہ قریب ترین والے اتحادیوں کے لئے بھی۔

 

وہ حکومتیں جنہوں نے یہودی وجود کے ساتھ تعلقات نارملائز کئے یا سکیورٹی کے معاملات میں اس کے ساتھ تعاون کیا، وہ اب خود کو ذلت اور استحصال کی دلدل میں ڈوبا ہوا پاتی ہیں۔ جب کہ نیتن یاہو فخر سے ”تاریخی اور روحانی مشن“کا دعویٰ کرتا ہے تاکہ صیہونی خواب کو پورا کیا جا سکے، اور ”اسرائیل“ کو عرب خودمختاری کی قیمت پر وسعت دی جا سکے، ان عرب دارالحکومتوں کی جانب سے صرف خالی مذمتی بیانات ہی سامنے آتے ہیں، جو بے اثر اور بے معنی ہیں۔ ہم نے آج تک کوئی ایسا واقعہ نہیں دیکھا کہ کسی صیہونی سفیر کو ملک سے نکالا گیا ہو، یا کوئی معاہدہ معطل کیا گیا ہو، کوئی انٹیلی جنس تعاون منجمد کیا گیا ہو، یا اسرائیل کو اپنی بقا کو جاری رکھنے سے روکنے کے لیے کوئی اہم لاجسٹک پل منقطع کیا گیا ہو۔ یہ مکمل خاموشی ہی وہ شے ہے جو یہودی وجود کو ان حکومتوں کو مزید بے توقیر کرنے کی جرأت دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، صیہونی انتہا پسند وزیر برائے قومی سلامتی ایتامار بن گویر نے اپنے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے صیہونی پولیس کی حفاظت میں چھ مرتبہ مسجد الاقصیٰ پر دھاوا بول دیا، اور مقدس مقامات پر اردن کی تاریخی نگہبانی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ اردن کی وزارتِ خارجہ نے ان کارروائیوں کو ”جان بوجھ کر اشتعال انگیزی“ اور مسجد الاقصیٰ کی تاریخی و قانونی حیثیت کی خلاف ورزی قرار دیا، لیکن پھر بھی یہودی وجود اپنی مرضی زبردستی مسلط کرتا رہا، اور اردن کی طرف سے کبھی کوئی حقیقی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

 

یہ بات تو کھل کر واضح ہو چکی ہے کہ یہودی وجود اب کسی بھی وعدے یا معاہدے کی قطعی کوئی قدر نہیں کرتا، اگر وہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف ہوں۔ حتیٰ کہ یہودی وجود تو اپنے قریب ترین عرب اتحادیوں کے مفادات کو بھی روندنے کے لیے تیار ہے اگر وہ اس کے استعماری منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بنیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان حکومتوں کا ردِ عمل اپنی اس ذلت و توہین کے مقابلے میں انتہائی ناقص ہے۔ یہ حکومتیں صرف میڈیا میں مذمتی بیانات دینے اور عالمی برادری سے اپیلیں کرنے تک ہی محدود رہتی ہیں، بجائے اس کے کہ وہ ایسے مضبوط مؤقف اختیار کریں جو خودمختاری اور قومی وقار کا دعویٰ کرنے والی اقوام کے شایانِ شان ہوں۔

 

امریکی اور مغربی مؤقف: مفادات کا تحفظ یا پردہ پوشی؟

 

عالمی سطح پر ”گریٹر اسرائیل“منصوبہ نے اپنے مغربی اتحادیوں کو ایک تذبذب کی صورتحال میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایک طرف تو امریکہ اور یورپی ممالک سیاسی و عسکری حمایت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی فورمز میں یہودی وجود کو سفارتی تحفظ فراہم کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ دوسری طرف وہ صیہونی توسیع پسندانہ بیانات کے خطے کے استحکام پر پڑنے والے خطرناک اثرات سے انکار بھی نہیں کر سکتے۔ ہم نے نیتن یاہو کے وزراء کے اقدامات کے بعد واشنگٹن سے جاری ہونے والے غیر معمولی بیانات کا بھی مشاہدہ کیا ہے : امریکی محکمہ خارجہ نے صیہونی وزیر بیزالیل سموٹریچ کے اس بیان کو ”قابلِ نفرت“ اور ”گھناؤنا“قرار دیا، ، جس میں اس نے فلسطینی قصبے حوارہ کو مٹانے کی بات کی تھی،اور پورے گاؤں کو تباہ کرنے کے اس کے نعروں کو ”تشدد پر اکسانا“ کہا۔ امریکہ نے سموٹریچ کے اس بیان کی بھی مذمت کی جس میں اس نے فلسطینی قوم کے وجود کو ہی مسترد کر دیا تھا، امریکہ نے اس بیان کو ”غلط“ اور ”خطرناک“قرار دیا۔ حتیٰ کہ امریکی انتظامیہ نے حالیہ کنیسٹ قانون سازی پر بھی تنقید کی، جس کے تحت 2005ء میں خالی کی گئی چار بستیوں میں دوبارہ آبادکاری کی اجازت دی گئی ہے، امریکہ نے اسے ”اشتعال انگیز اقدام“ قرار دیا جو واشنگٹن سے کیے گئے صیہونی وعدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اور دو ریاستی حل کو مزید دور کر دیتا ہے۔

 

یہ بیانات اگرچہ نسبتاً سخت ہیں، لیکن یہ واشنگٹن کی جانب سے نیتن یاہو حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویے پر حقیقی تشویش کو ظاہر کرتے ہیں۔ امریکہ نے دہائیوں تک ایک علاقائی سلامتی کا ڈھانچہ قائم کرنے میں سرمایہ لگایا ہے، جو بظاہر دو ریاستی حل پر مبنی تھا، تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ اب نیتن یاہو یکطرفہ اقدامات کے ذریعے اس ڈھانچے کو منہدم کر رہا ہے، جو مکمل جنگ کے خطرے کو بڑھا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اعلیٰ طبقاتی امریکی میڈیا، جو روایتی طور پر صیہونیت کا حمایتی رہا ہے، وہ بھی اب خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔

 

مشہور صحافی تھامس فریڈمین نے 29 جولائی 2025ء کو نیو یارک ٹائمزمیں شائع ہونے والے ایک مضمون بعنوان، “How Netanyahu Played Trump for a Fool in Gaza,” میں لکھا کہ ”اس کی اسرائیلی حکومت ایسے طرزِ عمل اختیار کر رہی ہے جو خطے میں امریکہ کے بنیادی مفادات کے لیے خطرہ ہیں“۔ فریڈمین نے اس سے بھی آگے بڑھ کر صدر سے کہا کہ ”نیتن یاہو ہمارا دوست نہیں ہے“۔ اس  نے واضح کیا کہ نیتن یاہو کا اصل ایجنڈا صاف ظاہر ہے، یعنی : ویسٹ بینک کا انضمام، غزہ کے رہائشیوں کو بے دخل کرنا، اور وہاں دوبارہ بستیوں کی تعمیر کرنا،  یہ تمام اقدامات گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکی حکمتِ عملی کی بنیاد یعنی ”دو ریاستی حل“ کے نظریے کے بالکل منافی ہیں۔ فریڈ مین نے خبردار کیا کہ نیتن یاہو کا غزہ کے لیے منصوبہ، جو مستقل قبضے اور فلسطینیوں کو اجتماعی ہجرت پر مجبور کرنے پر مبنی ہے، تو وہ منصوبہ ”ایک مستقل شورش کا نسخہ ہے — بحیرہ روم پر ایک نیا ویتنام“۔ اس نے مزید تنبیہ کی کہ اگر صیہونی اس پالیسی کو جاری رکھتے ہیں تو ان پر جنگی جرائم کے الزامات لگ سکتے ہیں، اور یہ طرزِ عمل امریکہ کے اتحادیوں، جیسے اردن اور مصر، کو غیر مستحکم کر دے گا، جو کہ ایک انتہائی اہم اور تشویشناک نکتہ ہے۔ یہاں تک کہ امریکی اشرافیہ بھی تسلیم کر رہی ہےکہ کیمپ ڈیوڈ اور وادی عربہ کے معاہدے نیتن یاہو کی پالیسیوں کے باعث خطرے میں ہیں۔ فریڈمین کی واشنگٹن کو دی گئی کھلی وارننگ بالکل شفاف اور واضح تھی: ”اگر نیتن یاہو کو نہ روکا گیا، تو مستقبل میں یہودی وجود ایک تنہا، ناپسندیدہ ریاست بن جائے گی“۔

 

اسی طرح، یورپی پارلیمنٹ اور اقوامِ متحدہ نے بھی اپنے مؤقف میں تنقید کا لہجہ سخت کر لیا ہے۔ 2023ء کے اواخر میں، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی، جس میں ”اسرائیل“ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ایک مقررہ مدت کے اندر اندر اپنے قبضے کو ختم کرے، اور اس معاملے کو عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) کے حوالے کیا گیا۔ عدالت کی مشاورتی رائے میں قرار دیا گیا کہ ”اسرائیل“ کی فلسطینی علاقوں میں موجودگی غیر قانونی ہے، اور قابض علاقوں میں توسیع کو جاری رکھنا، نسل پرستی یا نسل کشی کے مترادف ہو سکتا ہے۔

 

عالمی فوجداری عدالت (ICC)، جو ہیگ میں واقع ہے، اس نے اگرچہ محدود حد تک جرأت کا مظاہرہ کیا، لیکن پھر بھی اس نے نیتن یاہو اور اس کے وزیرِ دفاع گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم کے الزامات پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔ یہ بین الاقوامی مؤقف قانونی اور اخلاقی طور پر اگرچہ اہم تو ضرور ہیں، لیکن وہ یہودی وجود کی ڈھٹائی وتکبر اور امریکہ کے ہمیشہ سے تیار ”ویٹو“ کے سامنے آ کر رک جاتے ہیں۔ نیتن یاہو مغربی دنیا کے روایتی جانبدارانہ رویے اور پابندیاں عائد کرنے کی حقیقی نیت کی کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے منصوبے کو ایسے جاری رکھے ہوئے ہے جیسے یہ تنقیدیں صرف میڈیا کے لیے چائے کی پیالی میں طوفان کی مانند ہوں۔ شاید عرب ممالک کے کمزور سرکاری ردِ عمل نے واشنگٹن اور یورپی دارالحکومتوں کو کوئی حقیقی دباؤدینے کی طرف سوچنے کی بجائے محض رسمی مذمت کے بیانات پر اکتفا کرنے پر آمادہ کر لیا ہے۔ ان دارالحکومتوں کو بخوبی علم ہے کہ صیہونی توسیعی منصوبوں کے ”براہِ راست نشانے“، جن میں عرب حکومتیں اور دیگر شامل ہیں، وہ اپنی حفاظت کے لیے کوئی مؤثر اقدام نہیں کریں گی۔ یوں مغربی مؤقف عملی طور پر شریکِ جرم بن جاتا ہے: وہ الفاظ میں تو تنقید کرتے ہیں، مگر عمل میں اسلحہ فراہم کرتے ہیں، تاکہ اپنے فوری مفادات کو برقرار رکھ سکیں، جیسے یہودی وجود کے ساتھ اتحاد اور اپنے ملک میں فلسطینی ہمدرد عوام کو مطمئن کرنا، بغیر اس تاریخی چیلنج کا سامنا کیے جو ”گریٹر اسرائیل“ کے نظریے اور خطے و دنیا کے استحکام پر اس کے تباہ کن اثرات سے پیدا ہوتا ہے۔

 

نتیجہ:

 

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ نیتن یاہو کے ”گریٹر اسرائیل“ کے بارے میں بیانات نے صیہونی وجود کی ستر پوشی کا آخری پردہ بھی ہٹا دیا ہے جو کہ اس وجود کی حقیقی پالیسیوں پر پردہ ڈالے ہوئے تھا۔ ان بیانات نے بلاشبہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ وجود اپنےتوسیعی عزائم کی کوئی حد نہیں جانتا اور ایسے کسی معاہدے یا عہد کی پرواہ نہیں کرتا، جب وہ اس کے استعماری اور بے دخلی کے منصوبوں سے متصادم ہوں۔ یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے جو اس وجود کی جارحانہ فطرت کو بغیر کسی نقاب یا آرائش کے بے نقاب کرتا ہے۔ یہ وجود خود کو ایک ”مقدس تاریخی مشن“ کی راہ پر سمجھتا ہے تاکہ اپنے صیہونی آباؤ اجداد کے خواب کو پورا کرے، چاہے اس کی قیمت ان حکومتوں کو چکانی پڑے جو طویل عرصے سے ”اسرائیل“ کے لیے ڈھال بنی ہوئی ہیں، اور اسے بقا، سلامتی اور زندگی کے وسائل فراہم کرتی رہی ہیں، حالانکہ لوگ اس سب کو مسترد بھی کرتے رہے ہیں۔

 

اسی دوران، اس بحران نے ان عرب حکومتوں کی ذلت اور پستی کو بھی نمایاں کیا ہے جو دشمن کے ساتھ تعاون کرنے میں کس حد تک گر چکی ہیں۔ اس تمام خدمات کے باوجود جو ان حکومتوں نے اس قابض وجود کی سکیورٹی اور اس کی حکومت کے استحکام کے لیے خفیہ اور اعلانیہ ہر ممکن طور پر انجام دی ہیں، لیکن انہیں اس کے بدلے میں کچھ نہ مل پایا سوائےحقارت و رسوائی کے۔ نیتن یاہو نے غزہ میں قتل و غارت کے دوران ان حکمرانوں کی طرف سے بغلگیر ہونے کے لئے آگے بڑھائے ہوئے ہاتھوں کو یکسر نظرانداز کردیا، اور ان حکمرانوں کے اپنے عوام کے سامنے ان کی حالت زار کی کوئی پرواہ کیے بغیر ان کے وعدوں اور یقین دہانیوں کو ٹھوکر مار کر پرے کر دیا۔ واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ قابض وجود کی ”نیک نیتی“ پر بھروسہ کرنے والوں کی امیدیں خسارے اور تباہی کا سودا ہیں۔ یہ قابض وجود صرف طاقت اور مفاد کی زبان سمجھتا ہے۔ یہ وجود صرف انہی کی عزت کرتا ہے جو اسے عزت کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور انہیں ٹھڈے مارتا ہے جو خود اس کے سامنے بچھے چلے ہیں۔

 

عرب حکمرانوں نے جو صیہونی وجود کے ساتھ تعلقات نارملائز کرنے کے لئے مرے جارہے تھے، یہ سوچتے ہوئے کہ یہودی وجود اور امریکہ کی دوستی ان کے اقتدار کو محفوظ رکھے گی اور خوشحالی لائے گی، انہیں اب صرف یہ جاننا باقی ہے کہ وہ تو فقط وقتی آلۂ کار کی حیثیت رکھتے ہیں، جنہیں صیہونی وجود اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد کچرے میں پھینک دے گا، لیکن ان حکمرانوں کے یہ جاننے کے لئے اب شاید بہت دیر ہوچکی ہے اور وہ شاید اعلانیہ اس کا اعتراف بھی نہ کر پائیں۔

 

اب جبکہ نیتن یاہو نے غزہ کے بہادر عوام کو فوجی طاقت سے شکست دینے میں ناکامی کے بعد ”گریٹر اسرائیل“ کے تصور کو دوبارہ زندہ کیا ہے، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی عسکری ناکامی کو کمزور اور تابع فرمان عرب حکومتوں کی قیمت پر ایک جھوٹی سیاسی و نظریاتی فتح سے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔

 

اس کی فوج غزہ کے چند ہزار نہتے مجاہدین کو تو شکست نہ دے سکی، اس لیے اب وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ ان حکومتوں کے خلاف کر رہا ہے جن کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اسے روکنے کی ہمت نہیں رکھتیں۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جو ہمارے خطے کے عوام کو سمجھنی چاہیے۔ قابض یہودی وجود ایک دشمن وجود ہے، جو اپنے توسیعی عزائم کی راہ میں آنے والے کسی بھی اتحاد یا معاہدے کی پرواہ نہیں کرتا۔ جرم میں شریک ان حکومتوں پر  یہ بھروسہ کرنا کہ یہ ہمارا تحفظ کریں گی، تو یہ سراسر ایک فریب ہے۔ مصر، اردن، شام اور فلسطینی اتھارٹی صیہونی پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہیں۔ انہوں نے غزہ کو اس کے مقدر کے حوالے کر دیا اور اس وقت بھی بے بس رہے جب ویسٹ بینک کو نگل لیا گیا اور القدس کو یہودیت میں بدل دیا گیا۔ تو ہم ان سے کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ پورے خطے میں پھیلتے ہوئے ”گریٹر اسرائیل“ منصوبے کو روک سکیں گے؟

 

تاریخ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ ثابت کرتی جا رہی ہے کہ اسلامی اُمت کے حقوق تب ہی محفوظ ہو سکیں گے جب اُمت خود اٹھے گی اور نبوت کے طریقہ پر ایک خلافتِ راشدہ قائم کرے گی، وہ خلافت جو قابض وجود کو شیطان کی سرگوشیاں تک بھلا دے گی۔

 

جو حکومتیں دشمن کے سامنے سر جھکاتی ہیں انہوں نے خود کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا ہے۔ انہیں اسی طاقت کی طرف سے مزید ذلت ملنی ہے جسے وہ کبھی اپنا دوست اور محافظ سمجھتی تھیں۔ نیتن یاہو نے انہیں رسوائی میں مبتلا کر دیا ہے۔ کیا وہ اس بات کا ادراک کر لیں گے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ؟ یا وہ اسی طرح دشمن کے آگے رینگتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ  انہیں ایک طرف پھینک نہ دے جب وہ اس کے لیے فائدہ مند نہ رہیں گے؟

 

بہرحال، اس میں ایک لمحے کے لیے بھی کوئی شک نہیں کہ یہ حکمران دشمن کے آگےجھکتے ہی رہیں گے، کیونکہ یہی ان کا وطیرہ ہے، جب تک کہ عوام اٹھیں اور  انہیں ہٹا نہیں دیتے اور عزت، شرف اور ایمان کا راستہ اختیار نہیں کر لیتے۔

 

اور اب ایک بات تو یقینی ہے: ”گریٹر اسرائیل“ صرف انہی تعلقات کو نارملائز کرنے والی حکومتوں کی بچی کھچی عزت کے کھنڈرات  پر ہی تعمیر کیا جائے گا۔ اور مستقبل یہ بات بہت جلد ظاہر کر دے گا۔

Last modified onہفتہ, 25 اکتوبر 2025 19:20

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک